بغداد کو امید ہے کہ ایران سعودی عرب کے مابین باہمی چپقلش کے باوجود مذاکرات جلد بحال ہوجائیں گے۔ تہران اور ریاض کے مابین گزشتہ کئی برسوں سے تعلقات کشیدہ ہیں۔
ایران کے سرکاری ٹی وی کے مطابق عراقی وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی نے اپنے دورہ سعودی عرب کے دوران سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات کے ایک روز بعد اتوار کو تہران میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقات کی ہے۔
کاظمی نے رئیسی کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہناتھا کہ ہم نے خطے میں قیام امن اور سلامتی کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے ان اہم مسائل کے بارے میں بات کی جن کا خطے کی اقوام کو سامنا ہے اور اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ یمنی جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کی حمایت کریں گے۔
دوسری جانب، ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے عراقی وزیر اعظم کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان گہرے تعلقات ہیں، جس سے وسیع تعاون میں مدد ملتی ہے۔
Advertisement
ایرانی خبر رساں ایجنسی ارنا کے مطابق رئیسی نے یمن میں جاری جنگ کے حوالے سے کہا کہ ہم بلاشبہ اس جنگ کے تسلسل کو لاحاصل سمجھتے ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ اس جنگ سے یمنی عوام کے دکھ درد میں اضافے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا، لہٰذا اس جنگ کا جلد از جلد خاتمہ ہونا چاہیے۔
عراقی وزیر اعظم الکاظمی نے تہران آنے سے ایک روز قبل جدہ میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات کی تھی۔
اس حوالے سے سعودی عرب کی خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق میٹنگ میں ان دونوں رہنماؤں نے دونوں برادر ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات اور مشترکہ تعاون کے شعبوں کا جائزہ لیا اور علاقائی سلامتی اور استحکام کی حمایت پر زور دیا۔
کاظمی کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوریا ہے کہ جب یورپی یونین خارجہ پالیسی کے سربراہ یوزیپ بوریل بھی جمعے کے روز تہران میں تھے جہاں انہوں نے اعلان کیا کہ ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے مغربی ممالک کے مابین مذاکرات چند دنوں میں دوبارہ شروع ہوجائے گی۔
دوسری جانب، امریکی صدر جو بائیڈن کا اگلے ہفتے دورہ سعودی عرب متوقع ہے۔
ایران سعودی تعلقات
ایران اور سعودی عرب ایک عرصے سے علاقائی حریف سمجھے جاتے ہیں۔ دونوں طاقتیں یمن میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ بالواسطہ طورپر نبرد آزما ہیں۔ سعودی عرب معزول یمنی حکومت کی حمایت کرتا ہے جب کہ ایران حوثی باغیوں کی حمایت کررہا ہے۔تاہم، پچھلے دنوں جنگ کے بندی کے بعد یمن میں، جو اس وقت دنیا کے بدترین انسانی بحران سے دوچار ملکوں میں سے ایک ہے، تصادم کے خاتمے کی امیدیں پیدا ہو گئی ہیں۔
یاد رہے، بغداد نے گزشتہ برس بھی تہران اور ریاض کے درمیان کشیدگی کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن تقریباً چالیس شیعہ شہریوں کو پھانسی دیے جانے کی وجہ سے یہ کوشش ناکام ہوگئی۔