چین نے حالیہ امریکی جنرل کے مشرقی لداخ میں چینی انفراسٹرکچر سے متعلق کے بیان کو آگ میں ایندھن ڈالنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ ساتھ ہی چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس بیان کو “قابل نفرت فعل” قرار دیا۔
واضح رہے، نئی دہلی کے دورے کے دوران امریکی فوجی جنرل چارلس اے فلین نے کہا تھا کہ مشرقی لداخ میں چینی فوج جس انداز سے اپنا انفراسٹرکچر کھڑا کر رہی ہے وہ کافی خطرناک ہے اور یہ خطے میں عدم استحکام کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔
دوسری جانب، چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے امریکی جنرل کے بیان پر سخت رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ سرحدی مسئلہ چین اور بھارت کے درمیان ہے، دونوں فریق اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے مناسب طریقے سے حل کرنے کی خواہش اور صلاحیت بھی رکھتے ہے تاہم کچھ امریکی حکام اس معاملے میں آگ میں ایندھن ڈالنے کا کام کرنے کے ساتھ ہی انگلیاں اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس تناظر میں حب نئی دہلی میں بھارتی وزارت خارجہ سے سوال کیا گیا، تو انہوں نے امریکہ کا ذکر کیے بغیر کہا کہ حکومت علاقائی سالمیت اور خود مختاری کے تحفظ کے لیے تمام مناسب اور مؤثر اقدامات کے لیے پر عزم ہے۔
Advertisement
انہوں نے کہا کہ ہماری توقع ہے کہ ان مذاکرات میں چینی اور بھارتی فریق مل کر بقیہ مسائل کے باہمی طور پر قابل قبول حل تک پہنچنے کے لیے کام کریں گے۔ اس حقیقت کے پیش نظر دونوں فریق اس بات پر بھی متفق ہیں کہ موجودہ صورت حال کو طول دینا کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔
یاد رہے، امریکی جنرل چارلس اے فلین نئی دہلی کے دورے پر تھے، جو ہند بحرالکاہل میں امریکی فوج کے کمانڈنگ افسر ہیں۔
لداخ پر چینی انفراسٹرکچر کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال سے جو کچھ بھی بنیادی ڈھانچہ تیار کیا جا رہا ہے وہ تشویشناک ہے۔ ان کے تمام فوجی ہتھیاروں سے متعلق بالآخر یہ سوال پوچھنا ہی پڑتا ہے کہ آخر یہ کیوں ہو رہا ہے؟ اور اس کے پیچھے ان کا مفاد کیا ہے؟
بھارت اور چین کے درمیان لداخ پر ہونے والے تناؤ پر ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں جو بات چیت چل رہی ہے وہ معاون ہے تاہم رویہ بھی اہم ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں اس کو سمجھنا ایک چیز ہے، لیکن جس طرح سے وہ کام کر رہے ہیں اور ان کا جو برتاؤ ہے، وہ سب کے نزدیک بدستور تشویشناک ہے۔
علاوہ ازیں، بھارت اور مغربی ممالک میں حالیہ روس یوکرین کے تنازعے کے سبب سرد مہری دیکھنے میں آئی تھی۔ ماہرین کا یہ کہنا تھا کہ بھارت قومی مفاد کو بالاتر رکھتے ہوئے مضبوط فیصلے کرے کہ جو دور اندیشی پر مبنی ہوں۔