مظاہرین نے سری لنکا کا صدارتی محل اور اہم سرکاری عمارتیں خالی کردیں

52

معاشی بحران کے شکار سری لنکا میں حکومت مخالف مظاہرین نے کہا ہے کہ وہ سرکاری عمارات سے اپنا قبضہ ختم کر رہے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق رواں ہفتے سیکڑوں مظاہرین نے سری لنکا کے صدر گوٹابایا راجاپکسے کے محل پر قبضہ کرکے انہیں بدھ کو مالدیپ فرار ہونے پر مجبور  کردیا تھا جبکہ مظاہرین کا بہت بڑا ہجوم وزیر اعظم رانیل وکرماسنگھے کے دفتر بھی جمع ہوگیا۔

وزیر اعظم رانیل وکرماسنگھے نے یہ مطالبہ کیا  تھا کہ مظاہرین سرکاری عمارات کو خالی کریں۔ انہوں نے سیکیورٹی فورسز کو ہدایات جاری کیں کہ امن و امان کی بحالی کے لیے جو بھی ضروری اقدامات کیے جاسکتے ہیں وہ کریں۔

دوسری جانب، حکومت مخالف مہم کی حمایت کرنے والے ایک اعلیٰ بدھ راہب نے بھی دو سو سال سے زائد پرانے صدارتی محل کو حکام کے حوالے کرنے اور اس کے قیمتی آرٹ اور نوادرات کو محفوظ رکھنے کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔

صدر گوٹابایا راجاپکسے کے فرار ہونے اور ان کے سیکورٹی گارڈز کے پیچھے ہٹنے کے بعد عوام کے لیے کھولے جانے کے بعد سے اب تک لاکھوں افراد اس صدارتی محل کے احاطے کا دورہ کر چکے ہیں۔

Advertisement

کولمبو میں ہزاروں لوگوں کی طرف سے دفتر پر قبضہ کرنے کے بعد ایک ٹیلی ویژن خطاب میں وزیر اعظم رانیل وکرماسنگھے نے کہا کہ جو لوگ میرے دفتر میں گئے ہیں وہ مجھے قائم مقام صدر کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے روکنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم فاشسٹوں کو یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ قبضہ کریں اور یہی وجہ ہے کہ میں نے پورے ملک میں ایمرجنسی اور کرفیو نافذ کیا ہے۔تاہم جمعرات کی صبح کرفیو ہٹادیا گیا تھا لیکن پولیس نے بتایا کہ قومی پارلیمنٹ کے باہر مظاہرین کے ساتھ رات بھر کی جھڑپوں میں ایک سپاہی اور ایک کانسٹیبل زخمی ہوگئے ہیں۔

دوسری جانب، مالدیپ کے میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ صدر نے والڈورف آسٹوریا سپر لگژری ریزورٹ میں رات گزاری۔

یاد رہے، گوٹابایا راجاپکسے نے وعدہ کیا تھا کہ وہ بدھ کے روز اپنے عہدے سے مستعفی ہوں گے، مگر تاحال اس طرح کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

@media print { body { color: inherit; /* Ensures that the color is maintained */ } }