آج جب عالمی طاقتیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے موجود ہیں تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا مغربی دفاعی اتحاد اپنے مشرقی یورپ میں موجود اتحادیوں کو بچا پائے گا۔ نیٹو اتحاد اپنے مشرقی یورپی ارکان کو روس سے تحفظ فراہم کر سکتا ہے لیکن وہ انہیں اندرونی مسائل سے محفوظ نہیں رکھ سکتا۔
نیٹو کے اسٹریٹجک تصور 2022 میں روس کا چودہ اور چین کا گیارہ مرتبہ ذکر کیا گیا ہے۔ ماسکو اور بیجنگ کے درمیان اتحاد پر یہ گہری توجہ اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ نیٹو کے سربراہان مملکت اور حکومت آنے والے خطرات سے بخوبی واقف ہیں۔ موجودہ حالات میں نیٹو کے مشرقی حصے کو کئی طریقوں سے مضبوط کیا جانا لازمی ہے۔
Advertisement
نیٹو نئے ممالک کے لیے بھی کھلا رہے گا اور اب یہ فوجی اتحاد مغربی بلقان اور بحیرہ اسود کو اسٹریٹجک طور پر اہم قرار دیتا ہے۔
نیٹو کا “اسٹریٹجک تصور” کیا کہتا ہے ؟
نیٹو کا نیا اسٹریٹجک تصور اس بات پر زور دیتا ہے کہ اتحاد اپنے رکن ممالک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت پر حملے کے کسی بھی امکان کو مسترد نہیں کرسکتا۔ شام، شمالی کوریا اور روس حالیہ دنوں میں پہلے ہی کیمیائی ہتھیار استعمال کر چکے ہیں۔ چین اور ایران خفیہ طور پر جوہری صلاحیتیں حاصل کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں رکن ممالک کی کی سیکیورٹی اتحاد کی ترجیحات میں شامل ہے۔
نیٹو اتحاد کو لاحق خطرات
نیٹو اتحاد کے نئے اسٹریٹجک تصور میں اتحاد کو لاحق اندرونی خطرات بھی شامل ہیں۔ اس اتحاد نے ابھی تک ان خطرات کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہے۔ نیٹو کے بعض رکن ممالک کویورپ اور بحر اوقیانوس کی اقدار سے وفاداری کے حوالے سے سنگین مسائل درپیش ہیں۔ مختلف رکن ممالک میں سیاسی عدم استحکام بھی نیٹو کےاتحاد کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ بلقان کی ریاستیں اب بھی تاریخی علاقائی دشمنیوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں۔
رومانیہ اور پولینڈ یورپی یونین سے تعلق رکھنے والے دونوں رکن ممالک ہیں۔ یہاں عدلیہ واضح طور پر سیاست کے ماتحت رہی ہے۔ اس کے باوجود قانون کی حکمرانی کو برباد کرنے والی اس برائی کو نظر انداز کیا جا رہا ہے کیونکہ رومانیہ اور پولینڈ دونوں یوکرائن اور یوکرائنی پناہ گزینوں کو کلیدی مدد فراہم کر رہے ہیں۔
ہنگری کا جھکاؤ نیٹو کی طرف باقی مشرقی ممالک کی نسبت زیادہ ہے۔ ترکی مشرق وسطیٰ اور بلقان میں اثرورسوخ بڑھانےکے لیے اپنی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے جبکہ بلغاریہ ایک غیر مستحکم پوزیشن کے ساتھ موجود ہے۔ سلوواکیہ اور جمہوریہ چیک کی جانب سے مغرب کی طرف اختیار کی گئی سمت ناہموار ہے اور کبھی بھی واپسی کے امکان سے خالی نہیں رہی۔
یہاں کروشیا کی صورتحال دلچسپ ہے۔ مملکت میں طاقت کا ایک مرکز یعنی صدر روس کی حمایت کرتا ہے جبکہ طاقت کا دوسرا مرکز یعنی وزیر اعظم مغرب کو ترجیح دیتا ہے۔
واضح رہے، بلغاریہ شمالی مقدونیہ کو کمزور کرنے میں مصروف ہے اور سربیا کے سیاست دان بہرحال روس کے ساتھ کھڑے ہیں۔
مذکورہ بالا تمام علاقائی دراڑیں روس کے حق میں ہیں۔ ماسکواس پوری صورتحال کو اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے باآسانی استعمال کرسکتا ہے۔
پاپولزم کی واپسی
پاپولزم کی یورپ میں ہر جگہ ایک مضبوط واپسی ہو رہی ہے۔ لیکن یہ معاملہ مغرب کے مقابلے میں مشرقی یورپ میں بہت زیادہ خطرناک ہے کیونکہ وہاں کے ادارے اب بھی کمزور ہیں اور وہ جوابی لڑائی کے لیے بھی تیار نہیں۔براعظم یورپ کے اس حصے میں جمہوریت اب تک آمریتوں اورشخصی حکومتوں کے زیر اثر تاریخ میں ایک وقفے سے کچھ زیادہ رہی ہے۔
ماہرین کا یہ سوال ہے کہ آزادی کی فلسفے پر عمل پیرا مغرب کیا آزادیوں کو تیزی سے ختم کرنے اور قانون کی حکمرانی کو دبانے والے ان ممالک پر انحصار کر سکتا ہے؟