سلامتی کونسل کی تیار کردہ ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو القاعدہ، داعش اور پنجشیر سے تعلق رکھنے والے باغیوں کی طرف سے خطرات لاحق ہیں۔
گزشتہ برس اگست میں نیٹو اور مغربی اتحادیوں کے انخلا کے بعد افغانستان کا اقتدار سنبھالنے والے طالبان ملک پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی مسلسل کوشش میں ہیں۔ تاہم انہیں کئی مسائل کا سامنا ہے تاہم، طالبان بین الاقوامی سطح پر خود کو تسلیم کرانے اور عالمی اقتصادی نظام میں دوبارہ شامل ہو کر افغانستان کے بڑھتے معاشی اور انسانی بحران پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں ماہرین کا لکھنا ہے کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے تحریک میں کئی وجوہات کی بنا پر داخلی کشیدگی پیدا ہوئی، جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ طالبان کی حکمرانی منتشر، غیر مربوط پالیسیوں کو تبدیل کرنے اور وعدوں سے پھر جانے کا شکار ہے۔
سیکورٹی کے حوالے سے نیشنل ریزسٹنس فرنٹ اور نئے گروپ افغان فریڈم فرنٹ نے حال ہی میں اپنی کارروائیوں میں تیزی پیدا کی ہے اور متعدد صوبوں میں حملے کیے ہیں۔
رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ طالبان نے القاعدہ کے ساتھ روابط برقرار رکھے ہوئے ہیں اور اس گروپ کے سربراہ ایمن الظواہری مبینہ طور پر مشرقی افغانستان میں موجود ہیں۔
Advertisement
واضح رہے، داعش نے افغانستان میں کئی بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی، جن میں درجنوں افغان شہری مارے گئے۔
رپورٹ کے مطابق القاعدہ، داعش اور کئی دیگر دہشت گرد گروہوں اور جنگجوؤں کی افغان سرزمین پر موجودگی کے باعث بین الاقوامی سطح پر تشویش بڑھ رہی ہے۔
مئی کے مہینے میں وزارت ‘امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘ کے ترجمان نے کہا تھا کہ خواتین کو چاہیے کہ وہ ایسے مردوں سے بات کرتے وقت، جو ان کے رشتہ دار نہیں، اپنی آنکھوں کے علاوہ سب کچھ ڈھانپ لیں۔ انہیں برقع پہننا چاہیے کیوں کہ یہی روایت ہے۔ حجاب کی پابندی کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جب تک ضروری نہ ہو، گھر سے باہر نہ جائیں۔
علاوہ ازیں، افغانستان کے معاملے پر بحث کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس رواں ماہ منعقد ہو گا۔