بی جے پی کی قیادت میں بھارت کو سفارتی بحران کا سامنا ہے۔ توہین رسالت ﷺ کے باعث بھارتی مرکزی حکومت تنقید کی زد میں ہے۔
غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق بی جے پی کے رہنماؤں کی جانب سے پیغمبر اسلام کے بارے میں توہین آمیز تبصروں کے بعد مسلم ممالک میں بھارت کے خلاف شدید غم وغصہ پایا جاریا ہے۔
اس تناظر میں سولہ اسلامی ممالک نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر، سرکاری بیانات اور بھارتی سفارت کاروں کو طلب کر کے اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔ بی جے پی کو مجبور کیا گیا کہ وہ پارٹی کی ترجمان نوپور شرما کو معطل کرے۔ اس سے قبل ان کے تبصروں کے خلاف شمالی انڈیا کے شہر کانپور میں ہونے والے مظاہروں میں 40 سے زائد افراد زخمی ہو گئے تھے۔
واضح رہے، سابق سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے گھر میں جو چاہے کرے اور اسلامی یا مغربی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کا فائدہ بھی اٹھائے۔
سابق بھارتی سفارت کار تلمیز احمد کے مطابق جی سی سی ممالک میں بھارتی کمیونٹی کی طرف سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر سے جو ریونیو ملتا ہے وہ بھارتی حکومت کے سالانہ تیل کے درآمدی بلوں کے ایک تہائی سے زیادہ کا احاطہ کرتا ہے۔
Advertisement
سابق بھارتی سفارتکار کا مزید کہنا تھا کہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ سفارتی ردعمل ان تعلقات کو طویل مدتی نقصان پہنچائے جو بھارت کو خلیج عرب اور دیگر مسلم اکثریتی ممالک کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت کو اپنی ملکی پالیسیوں کا بغور جائزہ لینا چاہئیے اور بھارت کے مسلم ممالک سے روابط کو مستحکم کرنے کے لیے بروقت اقدامات بھی کرنے چاہئیے ہیں۔
یاد رہے، ایک اندازے کے مطابق 85 لاکھ انڈین شہری جی سی سی بلاک میں کام کرتے ہیں۔ ہر سال وہ تقریباً 35 ارب ڈالر کی ترسیلات بھیجتے ہیں جس سے بھارت میں چالیس لاکھ خاندان کے افراد کی کفالت ہوتی ہے۔