برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی حکومت پھر خطرے میں، 2 وزراء مستعفی

71

برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی کابینہ کے دو اہم وزراء کے مستعفی ہونے کے بعد یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ ان کی وزارتِ عظمیٰ خطرے میں ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز برطانوی وزیر خزانہ رشی سونک اور وزیر صحت ساجد جاوید نے یہ کہتے ہوئے اپنی وزارتوں سے استعفیٰ دے دیا تھا کہ وہ بورس جانسن کی انتظامیہ کو داغدار کرنے والے حالیہ اسکینڈلز کے بعد حکومت میں مزید شامل نہیں رہ سکتے۔

بورس جانسن کی حکومت پچھلے کچھ مہینوں سے اسکینڈلز کی زد میں ہے۔ وزیراعظم کو کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانہ کیا گیا تھا۔ ان کے ڈاؤننگ اسٹریٹ آفس کے عہدیداروں کے رویے کے خلاف ایک قابل مذمت رپورٹ بھی شائع ہوئی تھی۔

Advertisement

برطانوی وزیراعظم کی پالیسی میں یوٹرن بھی دیکھے گئے، لابنگ کے حوالے سے بنائے گئے قواعد توڑنے والے ایک قانون ساز کا خوامخواہ دفاع بھی ان پر تنقید کی وجہ بنا۔ اس کے ساتھ ساتھ بورس جانسن پر یہ تنقید بھی کی گئی کہ انہوں نے ایندھن اور اجناس کی بڑھتی قیمتوں پر برطانوی عوام کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے۔

تازہ ترین اسکینڈل میں بورس جانسن نے ایم پی کرس پنچر کو حکومتی عہدے پر تعینات کیا جن کے خلاف جنسی بدسلوکی کی شکایات تھیں۔ اس اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد ہی رشی سونک اور ساجد جاوید نے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے۔

ساجد جاوید نے اپنے استعفے میں لکھا کہ یہ واضح ہے کہ یہ صورتحال آپ کی قیادت میں نہیں بدلے گی اس لیے آپ نے میرا اعتماد بھی کھو دیا ہے۔ رشی سونک نے استعفے میں لکھا کہ عوام توقع کرتے ہیں کہ مناسب طریقے، قابلیت اور سنجیدگی سے حکومت چلائی جائے گی۔

برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کو اسکینڈلز سے متعلق آج بروز بدھ پارلیمنٹ میں سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حکمران کنزرویٹو پارٹی میں قانون سازوں کی بڑی تعداد کا کہنا ہے کہ جانسن کے لیے کھیل اب ختم ہو چکا ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

@media print { body { color: inherit; /* Ensures that the color is maintained */ } }