ایران جوہری مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے، امریکی دعویٰ

79

ایران کے لیے امریکا کے خصوصی ایلچی رابرٹ میلی کا کہنا ہے کہ ایرانی مذاکرات کاروں نے کئی نئے مطالبات شامل کر دیے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ایران جوہری مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے۔

2015ء کے جوہری معاہدے کو بچانے کی ایک اور کوشش کے طور پر امریکا اور ایران کے مابین گزشتہ ہفتے قطر کے دارالحکومت دوحا میں بالواسطہ مذاکرات کا ایک اور دور ہوا تھا لیکن اس میں کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی۔

امریکا کے خصوصی مذاکرات کار رابرٹ میلی نے گزشتہ روز بتایا کہ ایران نے جوہری پروگرام پر حالیہ مذاکرات میں کئی نئے غیرمتعلقہ مطالبات شامل کر دیے جبکہ ہم اس تجویز پر غور کر رہے تھے کہ ایران جوہری معاہدے پر عملدرآمد کے لیے ایک مقررہ وقت کا اعلان کرے تاکہ امریکا ایران کے خلاف عائد پابندیوں کو نرم کرسکے۔

Advertisement

اس سے پہلے مذاکرات کئی ماہ تک تعطل کا شکار رہے تھے۔ ایران امریکا سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ سپاہ پاسداران انقلاب کو دہشت گردوں کی بلیک لسٹ سے نکال دے۔ وہ اس بات کی بھی ضمانت چاہتا ہے کہ مستقبل میں کوئی بھی امریکی انتظامیہ معاہدے سے باہر نہ نکلے جیسا کہ سابق امریکی صدر ڈونلد ٹرمپ نے 2018ء میں کیا تھا۔ امریکا کا کہنا ہے کہ کسی بھی انتظامیہ یا عہدیدار کے لیے اس طرح کی ضمانت دینا ممکن نہیں ہے۔

اُدھر ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر ابوللہیان نے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوسیپ بوریل کے ساتھ بات چیت کے بعد ٹوئٹر پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ معاہدہ صرف باہمی مفاہمت اور مفادات کی بنیاد پر ہی ممکن ہے۔ ہم ایک مضبوط اور پائیدار معاہدے کی خاطر بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن امریکا کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کوئی معاہدہ چاہتا ہے یا اپنے یکطرفہ مطالبات پر ہی رُکے رہنا چاہتا ہے۔

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بتایا کہ فی الحال مذاکرات کا کوئی نیا دور زیرغور نہیں۔ ایران حالیہ مہینوں میں ناقابل قبول مطالبات پیش کرتا رہا ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

@media print { body { color: inherit; /* Ensures that the color is maintained */ } }