امریکی محکمہ خزانہ نے گزشتہ روز ایرانی خام تیل کے شعبے سے متعلق نئی پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔ یہ اقدام 2015ء کے متروک جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے قطر میں ہونے والے بالواسطہ مذاکرات کی ناکامی کے بعد اٹھایا گیا ہے۔
محکمہ خزانہ نے کہا کہ نئی پابندیوں کی زد میں آنے والے افراد اور اداروں کے ایک نیٹ ورک نے خلیج میں قائم فرنٹ کمپنیوں کا استعمال کیا ہے اورایرانی کمپنیوں کی ایران سے کروڑوں ڈالر مالیت کی پٹرولیم اور پیٹروکیمیکل مصنوعات کی مشرقی ایشیا کو ترسیل اور فروخت کو آسان بنایا ہے۔
محکمہ خزانہ کے انڈر سیکرٹری برائے دہشت گردی اور مالیاتی انٹیلیجنس برائن نیلسن نے کہا کہ امریکا پابندیوں کے باوجود ایران کے ساتھ جوہری معاہدے تک پہنچنے کے لیے پُرعزم ہے لیکن ایرانی پٹرولیم اورپیٹروکیمیکلز کی فروخت پر پابندیوں کے نفاذ کے لیے تمام وسائل کا استعمال جاری رکھیں گے۔
نئی پابندیوں کی زد میں آنے والے افراد اور اداروں میں ایرانی کمپنی جَم پیٹروکیمیکل بھی شامل ہے جس پر امریکی محکمہ خزانہ نے پورے مشرقی ایشیا میں کام کرنے والی کمپنیوں کو کروڑوں ڈالرمالیت کی پیٹروکیمیکل مصنوعات برآمد کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ ان مصنوعات کو چین بھیجنے کے لیے ایران کی پیٹروکیمیکل کمرشل کمپنی کو پہلے فروخت کیا گیا تھا۔
Advertisement
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے ایک الگ بیان میں کہا ہے کہ امریکا ایرانی پٹرولیم اور پیٹروکیمیکل پروڈیوسرز، ٹرانسپورٹرز اور فرنٹ کمپنیوں پر پابندیاں عائد کر رہا ہے۔ ایران جوہری معاہدے (جے سی پی او اے) میں واپسی کے لیے سنجیدہ نہیں جبکہ ہم مذاکرات کے ذریعے نتیجے تک پہنچنے کے لیے کوشاں ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ نے ایران کے طرزِعمل میں تبدیلی نہ آنے کے ردعمل میں ایران سے پٹرولیم اور اور پیٹروکیمیکل مصنوعات کی برآمدات کو پابندیوں کے ذریعے نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھنے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔