امریکہ کے وزیر برائے امور خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے اپنے جوہری پروگرام پر نظر رکھنے والے کیمروں کو ہٹانے کے بعد کشیدگی اور اس کی عالمی تنہائی مزید بڑھنے کا امکان ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق انٹونی بلنکن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ایران کے اقدامات سے 2015 کے چھ فریقی جوہری معاہدے کی ممکنہ بحالی کو خطرہ لاحق ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایران کی جانب سے اس طرح کے راستے کے انتخاب کا واحد نتیجہ نیوکلیئر بحران میں مزید اضافے اور ایران کے لیے مزید اقتصادی اور سیاسی تنہائی کی صورت میں ہو گا۔
امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ آئی اے ای اے کے خدشات کو دور کرنے کے بجائے ایران کا ردعمل مزید جوہری اشتعال انگیزی، نگرانی اور شفافیت میں مزید کمی کی دھمکی دینا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات نقصان دہ ہوں گے اور جے سی پی او اے کے مکمل نفاذ کے لیے ہماری کوششوں کو مزید مشکل بنادیں گے۔
Advertisement
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جے پی سی او اے کو بحال کرنے کے لیے بنیادی نکات اور مطالبات مارچ سے میز پر ہیں لیکن ایران معاہدے کی بحالی کو اضافی، غیر متعلقہ مطالبات کے ذریعے روک رہا ہے۔
قبل ازیں، بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی نے کہا تھا کہ تہران کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کی جانب سے استعمال کیے جانے والے 27 کیمروں کو ہٹانے سے ایک تاریخی معاہدے کو بحال کرنے کے لیے مذاکرات کو تباہ کن دھچکا لگ سکتا ہے۔
یاد رہے، اصل معاہدہ، جوائنٹ کمپرہینسو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے روکنا تھا۔ یہ معاہدہ 2018 اس وقت ختم ہو گیا تھا جب اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈرامائی طور پر اس سے علیحدگی اختیار کر کے ایران پر تیزی سے اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
جنوری 2021 میں اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے امریکی صدر جو بائیڈن نے اس معاہدے کو بحال کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ایران پر سے پابندیاں ہٹانے کی پیشکش کی ہے اگر اس کے بدلے تہران اپنے جوہری ترقیاتی پروگرام کی حدود اور نگرانی پر رضامندی ظاہر کرے۔
معاہدے کی بحالی میں حائل ایک ایرانی مطالبہ یہ بھی ہے کہ امریکا ملک کی طاقتور اسلامی انقلابی گارڈز کور سے امریکا کی جانب سے سرکاری دہشت گرد گروپ کا درجہ ہٹائے۔جو بائیڈن انتظامیہ نے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مسئلہ جے پی سی او اے سے غیر منسلک اور غیر متعلقہ ہے۔