چین کے صدر ژی جن پنگ کا کہنا ہے کہ دوسروں کی بقاء کی بنیاد پر اپنی سلامتی کے متمنی نہیں ہیں۔
نجی اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق بیجنگ برکس کی ابھرتی ہوئی معیشتوں کے اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے جس میں عالمی آبادی کا 40 فیصد سے زائد حصہ اور دنیا کی مجموعی ملکی پیداوار کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ہے۔
شی جن پنگ نے برکس بزنس فورم کو بتایا کہ یوکرین کا بحران ہم سب کے لیے ایک پیغام ہے کہ اب ہمیں جاگ جانا چاہیے اور انھوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اپنی سلامتی کے حصول کی خواہش فوجی اتحاد میں توسیع اور کسی دوسرے ممالک کی سلامتی کی بنیاد پر نہیں ہونی چاہیے۔
چین اور بھارت کے روس سے مضبوط کاروباری و دفاعی روابط ہیں اور وہ اس سے تیل اور گیس بڑی مقدار میں خریدتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے شی جن پنگ نے اپنے روسی ہم منصب پیوٹن کو یقین دلایا کہ چین ماسکو کی خودمختاری اور سلامتی کے بنیادی مفادات کی حمایت کرے گا اور یہی وجہ ہے کہ امریکا چین کو خبردار کرتا رہا ہے کہ وہ تاریخ کے غلط رخ پر کھڑا ہے۔
Advertisement
شی جن پنگ نے تقریر میں روس پر امریکی اور یورپی یونین کی پابندیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پابندیاں دو دھاری تلوار ہیں۔
گروپ آف سیون ممالک کے رہنما آئندہ ہفتے جرمنی میں ملاقات کریں گے جس میں روس کے خلاف پابندیوں میں اضافے کے طریقہ کار پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
علاوہ ازیں، برکس سربراہی اجلاس ایک ایسے وقت میں منعقد ہو رہا ہے جب روسی افواج چار ماہ قبل یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد اب ملک کے مشرقی حصے میں یلغار کررہی ہیں۔ چین اور بھارت دونوں نے روس سے خام تیل کی درآمدات میں اضافہ کیا ہے جس سے مغربی ممالک کی طرف سے روسی توانائی کی خریداری میں کمی سے ہونے والے نقصانات کو پورا کرنے میں مدد ملی ہے۔
ماضی میں سرد جنگ میں بدترین حریف تصور کیے جانے والے چین اور روس نے حالیہ برسوں میں تعاون کو بڑھایا ہے۔
مئی کے اواخر میں امریکی صدر جو بائیڈن کے دورہ جاپان کے موقع پر بیجنگ اور ماسکو نے بحیرہ جاپان اور مشرقی بحیرہ چین کے اوپر بمبار طیارے اڑا کر دونوں ملکوں کے مضبوط فوجی تعلقات کا اشارہ دیا تھا۔
یاد رہے، برکس کے تین ارکان چین، بھارت اور جنوبی افریقہ نے یوکرین پر روسی حملے کی مذمت کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قرارداد پر ووٹنگ سے گریز کیا۔