بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی وزارتِ اعلیٰ کے دوران 2002ء میں گجرات میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات کے دوران گودھرا میں بلقیس بانو نامی مسلم خاتون سے کی گئی اجتماعی زیادتی کے مجرمان کی گزشتہ دنوں رہائی کے فیصلے کے خلاف بھارت کے علاوہ اب بیرونی ممالک ميں بھی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔
بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن کے نائب صدر ابراہم کوپر نے جمعہ کے روز ایک بیان میں کہا، ”یو ایس سی آئی آر ایف گجرات فسادات کے دوران ایک حاملہ مسلم خاتون سے اجتماعی زیادتی کرنے اور مسلمانوں کے قتل کا ارتکاب کرنے والے گیارہ افراد کی قبل از وقت اور غیر منصفانہ رہائی کی مذمت کرتا ہے۔”
USCIRF Vice Chair Abraham Cooper: “USCIRF strongly condemns the early and unjustified release of 11 men sentenced to life in prison for raping a pregnant Muslim woman and committing murder against Muslim victims during the 2002 Gujarat Riots.” #India https://t.co/Zqj2JjMaYb
— USCIRF (@USCIRF) August 19, 2022
Advertisement
ہندو شرپسندوں نے 2002ء میں گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو کے گھر پر حملہ کرکے ان کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی جبکہ وہ پانچ ماہ کی حاملہ تھیں۔ مجرمان نے ان کی تین سالہ بیٹی سمیت ان کے خاندان کے 14 افراد کو قتل بھی کر دیا تھا۔ اس واقعے پر ملکی اور عالمی سطح پر شدید احتجاج ہوا اور ایک طویل قانونی جنگ کے بعد سپریم کورٹ نے گیارہ مجرموں کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
یو ایس سی آئی آر ایف کے کمشنر اسٹیفن شنیک نے ٹویٹ کیا، ”2002ء کے گجرات فسادات میں جسمانی اور جنسی تشدد میں ملوث مجرموں کو جوابدہ ٹھہرانے میں ناکام رہنا، انصاف کا مذاق ہے۔ یہ معاملہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ تشدد کرکے سزا سے بچ جانے کے پیٹرن کا حصہ ہے۔”
گجرات حکومت کی 1992ء کے مجرموں کو معافی دینے کی پالیسی کی بھی شدید نکتہ چینی ہو رہی ہے۔ گو کہ اس پالیسی کے تحت زیادتی یا اجتماعی زیادتی کے مجرم معافی کے حقدار نہیں ہیں پھر بھی عمر قید یافتہ مجرموں کو رہا کر دیا گیا۔
گجرات حکومت نے اس معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس نے فیصلہ ریاستی حکومت کی صوابدید پر چھوڑ دیا تھا۔ معافی پالیسی کے تحت کسی مجرم کو معاف کرنے کا فیصلہ ریاستی حکومت کی جانب سے تشکیل شدہ ایک دس رکنی کمیٹی کرتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس کمیٹی نے بلقیس بانو اجتماعی زیادتی کے مجرموں کو معاف کرنے کا فیصلہ کیا، اس کے پانچ اراکین کا تعلق بی جے پی سے ہے۔
Advertisement