بلقیس بانو اجتماعی زیادتی مجرمان کی رہائی، امریکی حکومتی کمیشن کی مذمت

45

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی وزارتِ اعلیٰ کے دوران 2002ء میں گجرات میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات کے دوران گودھرا میں بلقیس بانو نامی مسلم خاتون سے کی گئی اجتماعی زیادتی کے مجرمان کی گزشتہ دنوں رہائی کے فیصلے کے خلاف بھارت کے علاوہ اب بیرونی ممالک ميں بھی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔

بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن کے نائب صدر ابراہم کوپر نے جمعہ کے روز ایک بیان میں کہا، ”یو ایس سی آئی آر ایف گجرات فسادات کے دوران ایک حاملہ مسلم خاتون سے اجتماعی زیادتی کرنے اور مسلمانوں کے قتل کا ارتکاب کرنے والے گیارہ افراد کی قبل از وقت اور غیر منصفانہ رہائی کی مذمت کرتا ہے۔”

Advertisement

ہندو شرپسندوں نے 2002ء میں گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو کے گھر پر حملہ کرکے ان کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی جبکہ وہ پانچ ماہ کی حاملہ تھیں۔ مجرمان نے ان کی تین سالہ بیٹی سمیت ان کے خاندان کے 14 افراد کو قتل بھی کر دیا تھا۔ اس واقعے پر ملکی اور عالمی سطح پر شدید احتجاج ہوا اور ایک طویل قانونی جنگ کے بعد سپریم کورٹ نے گیارہ مجرموں کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

یو ایس سی آئی آر ایف کے کمشنر اسٹیفن شنیک نے ٹویٹ کیا، ”2002ء کے گجرات فسادات میں جسمانی اور جنسی تشدد میں ملوث مجرموں کو جوابدہ ٹھہرانے میں ناکام رہنا، انصاف کا مذاق ہے۔ یہ معاملہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ تشدد کرکے سزا سے بچ جانے کے پیٹرن کا حصہ ہے۔”

گجرات حکومت کی 1992ء کے مجرموں کو معافی دینے کی پالیسی کی بھی شدید نکتہ چینی ہو رہی ہے۔ گو کہ اس پالیسی کے تحت زیادتی یا اجتماعی زیادتی کے مجرم معافی کے حقدار نہیں ہیں پھر بھی عمر قید یافتہ مجرموں کو رہا کر دیا گیا۔

گجرات حکومت نے اس معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس نے فیصلہ ریاستی حکومت کی صوابدید پر چھوڑ دیا تھا۔ معافی پالیسی کے تحت کسی مجرم کو معاف کرنے کا فیصلہ ریاستی حکومت کی جانب سے تشکیل شدہ ایک دس رکنی کمیٹی کرتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس کمیٹی نے بلقیس بانو اجتماعی زیادتی کے مجرموں کو معاف کرنے کا فیصلہ کیا، اس کے پانچ اراکین کا تعلق بی جے پی سے ہے۔

Advertisement

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

@media print { body { color: inherit; /* Ensures that the color is maintained */ } }