ترکی کا یہ ماننا ہے کہ اگر سوئیڈن و فن لینڈ سیکورٹی سے متعلق اس کے خدشات دور کرنے میں ناکام رہے تو وہ ان کی نیٹو میں شمولیت کا عمل روک دے گا۔ سویڈن اور فن لینڈ کے وفود 25 مئی بدھ کے روز انقرہ میں تھے تاکہ ان کی نیٹو میں شمولیت سے متعلق وہ ترکی کے تحفظات کو دور کرسکیں۔
دوسری جانب، ترکی کا مؤقف ہے کہ یہ ممالک علیحدگی پسند کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) اور امریکی حمایت یافتہ شام کی کرد ملیشیا وائی پی جی کے حامی ہیں، اس لیے جب تک وہ سکیورٹی خدشات سے متعلق اپنا موقف واضح نہیں کرتے اس وقت نیٹو میں ان کی شمولیت کی مخالفت کی جائے گی۔
تحفظات کو دور کرنے کے لیے انقرہ پہنچنے والے وفد کی قیادت سویڈن اور فن لینڈ کے نائب وزرائے خارجہ کر رہے تھے، جنہوں نے اپنے ترک ہم منصب سیدات اونال اور صدر طیب ایردوان کے ترجمان ابراہیم قالن سے صدارتی محل میں ملاقات کی۔
بعد ازاں ملاقات کے بعد ایک نیوز کانفرنس میں قالن نے کہا کہ جہاں تک ہتھیاروں کی برآمدات پر عائد پابندیوں کو ہٹانے کی بات ہے، تو اس حوالے سے ترکی نے دونوں ممالک کی جانب سے مثبت نقطہ نظر کا مشاہدہ کیا ہے۔تاہم، انہوں نے زور دے کر کہا کہ ترکی اس وقت تک ان دونوں ممالک کی نیٹو میں شمولیت پر راضی نہیں ہو گا جب تک کہ انقرہ کے اعتراضات کو دور کرنے کے لیے مخصوص اقدامات نہ کیے جائیں۔
فن لینڈ اور روس تقریبا 1,300 کلومیٹر کی طویل سرحد کا اشتراک کرتے ہیں جبکہ اس کا پڑوسی سویڈن یوکرین پر ماسکو کے حملے سے پریشان ہے۔
Advertisement
واضح رہے، اسٹاک ہوم میں یورپی کونسل کے صدر چارلس مشیل کے ساتھ ایک ملاقات کے بعد، سویڈش وزیر اعظم نے کہا کہ ان کا ملک ان دعوؤں پر وضاحت کرنا چاہتا ہے جو ترکی کے ساتھ بات چیت کے حوالے سے پھیلتے جا رہے ہیں۔ ترکی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں دوسری بڑی فوج کا حامل ملک ہے اور یہ ملک اتحاد میں توسیع کا ہمیشہ حامی بھی رہا ہے۔ تاہم ترک صدر ایردوآن کا فن لینڈ اور سویڈن کی شمولیت پر یہ اعتراض ہے کہ یہ ممالک کالعدم کردستان ورکرز پارٹی کی حمایت کرتے ہیں۔
یاد رہے، کسی بھی نئے ملک کو نیٹو اتحاد میں شامل ہونے کے لیے اتحاد کے سبھی 30 اراکین کی رضامندی لینی ضروری ہوتی ہے۔ اس مشکل کے باوجود اتحاد کے دیگر ارکان نے ان دونوں ممالک کی مکمل حمایت کی ہے اور انہیں توقع ہے کہ وہ اس حوالے سے ترکی کے اعتراضات پر قابو پا سکتے ہیں۔