نوران الحمدان نامی فلسطینی طالبہ نے واشنگٹن کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں گریجویشن کی تقریب کے دوران امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن سے مصافحہ کرنے سے انکار کردیا۔
اسرائیل کے حوالے سے واشنگٹن کے موقف اور نسل پرست ریاست کے ہاتھوں شیریں ابو عاقلہ کے قتل کے خلاف احتجاج میں جارج ٹاؤن میں سنٹر فار کنٹیمپریری عرب اسٹڈیز میں تعلیم حاصل کرنے والے الحمدان نے فلسطین کا جھنڈا بلند کیا، اور اسٹیج پر بلنکن سے مصافحہ کرنے سے انکار کر دیا۔
@georgetownsfs graduation is back to an in-person ceremony so why not a quick iconic protest moment involving a Palestinian student and @SecBlinken pic.twitter.com/N1Z73LuZbE
— Robert Cox (@RobertCox) May 21, 2022
Advertisement
الحمدان نے گریجویشن تقریب کی ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا، “میں نے اور عرب اسٹڈیز میں میرے ہم جماعتوں نے انتھونی بلنکن کے خطاب کے دوران شیرین ابو عاقلہ کی میراث کا احترام کیا۔”
انہوں نے اپنے ٹویٹ میں لکھا، “ہم آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں اور اب اسرائیل کے لیے امریکی امداد کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ میں نے یہ مطالبات ذاتی طور پر بلنکن سے کیے اور اس سے ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا۔”
الہمدان نے انکشاف کیا کہ تقریب کے اختتام پر بلنکن ذاتی طور پر میرے پاس آئے اور کہا کہ “میں آپ کو سن رہا ہوں”، جس پر مشرق وسطیٰ کے انسٹی ٹیوٹ کے گریجویٹ ریسرچ فیلو نے کہا کہ اس نے “اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ اسرائیل کے لیے آزادانہ تحقیقات اور جوابدہی ضروری ہے۔”
“میں نے جب بلنکن سے کہا کہ وہ اسرائیلی فوج کے لیے تمام امریکی امداد بند کر دیں تو وہ وہاں سے چلے گئے۔”
الحمدان نے ابو عاقلہ کے اعزاز میں پوسٹر اٹھائے ہوئے اپنے ساتھیوں کی تصاویر شیئر کیں اور ایک ٹویٹ بھی شئیر کیا۔
انہوں نے جارج ٹاؤن میں اپنے ایک پروفیسر کے ذریعہ سکھائے گئے نعرے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، “ان کے پاس ٹینک ہیں، ہمارے پاس گھڑیاں ہیں۔”
“مجھے فخر ہے کہ میں نے آپ سے مصافحہ کرنے سے انکار کیا اور آپ کو ہمارے وجود کی یاد دلائی”۔
“They have the tanks, we have the clocks.” This motto taught to me by one of my most supportive professors at Georgetown. @SecBlinken justice for Shireen Abu Aqleh and all Palestinians. I am proud to have refused your handshake and to have reminded you of our existence. https://t.co/NbUrbL1KZX
— Nooran A. (@nooranhamdan) May 22, 2022
خیال رہے کہ اسرائیل نے خاتون صحافی ابو عاقلہ کو اس وقت قتل کیا تھا جب وہ قابض فوج کے جنین پناہ گزین کیمپ پر حملے کی کوریج کر رہی تھیں۔
ابو عاقلہ نے ایک جیکٹ پہن رکھی تھی جس پر “پریس” کا لفظ واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا اور ان کے پاس ہیلمٹ بھی تھا۔
تاہم اسنائپر کی جانب سے چلائی گئی گولی ان کے کان سے سر میں داخل ہوئی جس سے وہ شہید ہو گئیں۔
جب جائے وقعہ پر انہیں بچانے کی کوشش کے لیے ان کے ساتھی پہنچے تو ان پر بھی گولیاں چلائی گئیں۔
اسرائیل کی جانب سے قتل کی ذمہ داری سے ابتدائی طور پر انکار کے بعد اسرائیلی فوج نے ایک فوجی رائفل کی نشاندہی کی جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اسے ابو عاقلہ کو قتل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔