نازی جرمن ڈیٹنشن کیمپ کے سابق محافظ کو پانچ سال قید کی سزا سنادی گئی

58

جرمنی میں نازی دور کے ایک سابقہ اذیتی کیمپ کے 101 سالہ سابق محافظ کو پانچ سال کی سزائے قید سنا دی گئی۔

ملزم یوزیف شُؤٹس کے مقدمے کو اس لیے خصوصی اہمیت حاصل تھی کیوں کہ وہ آج تک کا سب سے عمر رسیدہ مل‍زم ہے جسے اپنے خلاف ہولوکاسٹ سے جڑے قتلِ عام کے واقعات سے متعلق الزامات کا سامنا تھا۔

یوزیف شُؤٹس 1942ء سے لے کر 1945ء کے دوران سابقہ نازی کیمپ میں بطور محافظ رہا۔ برلن کے شمال میں واقع اورانیئن بُرگ نامی مقام پر قائم زاکسن ہاؤزن اذیتی کیمپ کا تھا جہاں اسی عرصے میں 3,518 قیدیوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔

ملزم کا صحت جرم سے انکار

یوزیف شُؤٹس پر ساڑھے تین ہزار سے زائد انسانوں کے قتل میں معاونت کا الزام تھا۔ مقدمے کی سماعت کے دوران ملزم نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ بے قصور ہے اور ان نے ‘قطعاﹰ کچھ بھی نہیں‘ کیا تھا۔

Advertisement

یوزیف شُؤٹس کا عدالت میں کہنا تھا کہ اسے زاکسن ہاؤزن کے اذیتی کیمپ کے گارڈ کے طور پر اپنی ملازمت کے عرصے میں کبھی یہ علم نہیں ہو سکا کہ وہاں انسانوں کے قتل عام کی صورت میں خوفناک جرائم کا ارتکاب کیا جاتا رہا تھا۔

“ملزم سب اچھی طرح جانتا تھا”

ملزم کے دعوؤں کے برعکس استغاثہ کا اصرار تھا کہ یوزیف شُؤٹس اچھی طرح جانتا تھا کہ 1940ء کی دہائی کے پہلے نصف حصے میں زاکسن ہاؤزن کے نازی اذیتی کیمپ میں کیا کچھ ہوتا رہا تھا۔

استغاثہ کے مطابق ملزم نے “دانستہ” وہاں کیے جانے والے جرائم میں حصہ لیا۔ ضعیف العمری کی وجہ سے اسے کم از کم بھی پانچ سال کی سزائے قید سنائی جانا چاہیے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں ملزم کو اس کے خلاف لگائے گئے الزامات میں قصور وار قرار دیا اور اسے استغاثہ کے حسب مطالبہ پانچ سال قید کی سزا سنا دی۔

کیمپ میں دو لاکھ سے زائد قیدیوں کو رکھا گیا تھا

نازی دور میں قائم کیے گئے اس کیمپ میں دو لاکھ سے زائد قیدیہوں کو رکھا گیا تھا۔ان میں سے بہت بڑی اکثریت یہودیوں کی تھی۔

 

زاکسن ہاؤزن میموریل اور میوزیم کے اعداد و شمار کے مطابق اس نازی کیمپ کو 1945ء میں سابق سوویت یونین کے فوجی دستوں نے آزاد کرایا تھاتب تک  جبری مشقت، قتل عام، خوفناک قسم کے طبی تجربات، بھوک اور بیماریوں کے باعث اس کیمپ کے دو لاکھ سے زائد قیدیوں میں سے بیسیوں ہزار ہلاک ہو چکے تھے۔

یوزیف شُؤٹس کی جرم کے وقت عمر کیا تھی؟

ملزم یوزیف شُؤٹس پر لگائے گئے الزامات میں یہ الزام بھی شامل تھا کہ اس نے 1942ء میں اس کیمپ میں نازی فوجیوں کی طرف سے لائے گئے سابق سوویت یونین کے فوجیوں کی قیدیوں کے طور پر فائرنگ اسکواڈ کے ہاتھوں ہلاکت میں عملی مدد بھی کی تھی۔ملزم اسی کیمپ کے قیدیوں کو ہلاک کرنے کے لیے اس زہریلی گیس کے استعمال میں بھی شامل رہا تھا، جو سائیکلون بی کہلاتی تھی اور جس کے ذریعے ہر بار سینکڑوں کی تعداد میں قیدیوں کو گیس چیمبرز میں بھر کر ہلاک کر دیا جاتا تھا۔

بطور کیمپ گارڈ جس وقت ملزم ان تمام جرائم کا مرتکب ہوا تب اس کی عمر اکیس برس تھی۔

علاوہ ازیں، دوسری عالمی جنگ کے آخری مہینوں میں جب زاکسن ہاؤزن کا اذیتی کیمپ آزاد کرایا گیا تو سوویت یونین کے دستوں نے  ملزم شُؤٹس کو روس کی ایک جیل میں منتقل کر دیا تھا۔ اس جیل سے رہائی کے بعد جب وہ واپس جرمنی آیا، تو اس نے پہلے ایک کسان اور پھر ایک لوہار کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا تھا۔

 

یاد رہے، یوزیف شُؤٹس کے خلاف اس مقدمے کی سماعت 2021ء میں شروع ہوئی تھی۔اس مقدمے کی کارروائی کئی مرتبہ ملزم کی خرابی صحت کی بنیاد پر ملتوی بھی کرنا پڑی تھی۔شُؤٹس کو اگرچہ اب سزائے قید سنا دی گئی ہے، تاہم اس کی عمر اور خراب صحت کی وجہ سے یہ امکان بہت کم ہے کہ اسے یہ سزا کاٹنے کے لیے واقعی جیل بھی بھیج دیا جائے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

@media print { body { color: inherit; /* Ensures that the color is maintained */ } }