عراق نے ترکی پر کردستان کے علاقے میں فضائی حملے کرنے کا الزام عائد کیا ہے جس میں کم از کم نو سیاح ہلاک اور 20 زخمی ہوئے ہیں تاہم ترکی نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ دہشت گرد حملہ ہو سکتا ہے۔
عراق کے سرکاری ٹی وی چینل کے مطابق کردستان اور ترکی کے درمیان سرحد پر واقع شہر زاخو میں ایک سیاحتی مقام کو شدید بمباری کا نشانہ بنایا گیا۔ کردستان کے وزیر صحت نے ایک بیان میں کہا کہ متاثرین میں بچے بھی شامل ہیں جو ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ گئے۔ ان کے مطابق ہلاک افراد عراق کے دوسرے علاقے سے بطور سیاح وہاں آئے تھے۔
pic.twitter.com/FxUUBlJLnl
— Mustafa Al-Kadhimi مصطفى الكاظمي (@MAKadhimi) July 20, 2022
Advertisement
عراقی وزیراعظم مصطفیٰ الکاظمی نے حملے میں عراقی شہریوں کی سلامتی کو پہنچنے والے نقصان کی مذمت کی اور کہا کہ عراق جوابی کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ انہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ترک افواج نے ایک بار پھر عراقی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی کی ہے۔ عراقی مسلح افواج ترک جارحیت کے نتائج پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے ایک ہنگامی اجلاس کر رہی ہیں۔
اُدھر ترک وزارت خارجہ نے اسے دہشت گرد حملہ قرار دیتے ہوئے ہلاکتوں پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ ترک وزارت خارجہ نے ایک بیان میں عراقی حکام پر زور دیا کہ وہ دہشت گرد تنظیم (پی کے کے) کے پراپیگنڈے سے متاثر ہو کر بیانات دینے سے گریز کریں، ترکی حملے کی تحقیقات میں تعاون کے لیے بھی تیار ہے۔
ترک حکومت کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کو ایک دہشت گرد تنظیم سمجھتی ہے اور ترکی ایک طویل عرصے سے کردستان کے علاقے پر بھی باقاعدگی سے حملے کرتا رہا ہے۔ یہ گروپ 1984ء سے ترک ریاست کے خلاف بغاوت کرتا آ رہا ہے جبکہ اس تنازع میں اب تک ہزاروں جانیں بھی جا چکی ہیں۔ یورپی یونین اور امریکا نے بھی پی کے کے کو دہشت گرد تنظیموں کی اپنی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔