موذی مرض کینسر کے علاج کے حوالے سے بڑی خبر آ گئی

70

طبی ادویات کے سائنسدانوں نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ چند سال میں دنیا کو موذی مرض کینسر کی ویکسین میسر ہو گی۔

تفصیلات کے مطابق ترک نژاد طبی سائنسدانوں اوگور شاہین اور ان کی اہلیہ اوزلم تورجی نے ایک تازہ بیان میں کہا ہے کہ دنیا چند سال کے اندر موذی بیماری کینسر کے خلاف ویکسین کی ایجاد سے مستفید ہو سکے گی۔

ایک تازہ ترین انٹرویو میں دونوں سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ کینسر کے خلیوں کو تباہ کرنے میں مدد کے لیے کووڈ ویکسین ایم آر این اے کی ٹیکنالوجی کو دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے.

اوگور شاہین اور ان کی اہلیہ اوزلم تورجی کا کہنا تھا کہ اس طریقہ کار سے تیار کی جانے والی ویکسین دنیا بھر کے کینسر کے مریضوں کے علاج کو ممکن بنا سکتی ہے۔

یاد رہے اوگور شاہین اور ان کی اہلیہ اوزلم تورجی جرمن ادویات ساز کمپنی بائیو این ٹیک اور کمپنی فائزر کے ساتھ مل کر عالمی وبائی مرض کورونا وائرس کے خلاف انقلابی کووڈ ویکسین ایم آر این اے تیار کی تھی.

Advertisement

دونوں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایسے کامیاب تجربے کیے ہیں جن کے نتائج سے یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ آنے والے چند سالوں میں کینسر کے خلاف بھی مؤثر ویکسین تیار ہو جائے گی۔

اپنے حالیہ انٹرویو میں پروفیسر اوزلم تورجی نے بتایا کہ بائیو این ٹیک کی کووڈ ویکسین کی ایجاد کے دوران یہ امر سامنے آیا کہ ویکسین ایم آر این اے کی ٹیکنالوجی کو دوبارہ استعمال کر کے کینسر کے خلاف ویکسین تیار کی جا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مذکورہ ویکسین سے کیے گئے تجربے کے دوران مدافعتی نظام کی مدد سے کورونا وائرس کے بجائے کینسر کے خلیوں پر حملہ کرنے کی صلاحیت پائی گئی۔

اس سوال کے جواب میں کہ ایم آر این اے پر مشتمل کینسر کی ویکسین کب تک استعمال کے لیے تیار ہو سکے گی؟ پروفیسر شاہین نے کہا کہ دوہزار تیس سے پہلے یہ ویکسین تیار ہو جائے گی۔

پروفیسر اوگوار شاہین نے اس بارے میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ کینسر کا علاج یا کینسر کے مریضوں کی زندگیوں کو بدلنا اب ہماری گرفت میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ کینسر کے خلاف یہ ویکسین 2030 سے پہلے وسیع پیمانے پر تیار ہو سکتی ہے.

Advertisement

ترک نژاد اس جوڑے نے 2008 میں بائیو این ٹیک کی بنیاد رکھی تھی، ان کا بنیادی مقصد دراصل کینسر کے خلاف انفرادی کینسر امیون تھراپی کے علاج کی ایجاد تھا۔ تاہم جب کورونا کی عالمی وبا پھیلی تو انہوں نے اس ٹیکنالوجی کو اپنایا تاکہ پہلی مؤثر کووڈ انیس ویکسین تیار کی جا سکے۔

جرمن دواساز کمپنی بائیون ٹیک کے لیے کام کرنے والے سائنسدان امید کرتے ہیں کہ اس طرح آنتوں کے کینسر، میلانوما یا سیاہ رسولی اور سرطان کی دیگر اقسام کا علاج ممکن ہو گا۔

کینسر کے خلیات جو ٹیومر یا رسولی بناتے ہیں ان میں مختلف قسم کے پروٹین کو بھرا جاتا ہے اس وجہ سے کسی ایک ایسی ویکسین کو تیار کرنا انتہائی مشکل عمل ہے جو کینسر کے تمام خلیوں کو تو نشانہ بنائے مگر صحت مند ٹشوز کو نقصان نہ پہنچائے۔

Advertisement

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

@media print { body { color: inherit; /* Ensures that the color is maintained */ } }