سری لنکا میں اتوار کو رات دیر گئے جاری کیے گئے ایک سرکاری نوٹس کے مطابق قائم مقام صدر رانیل وکرما سنگھے نے ملک میں ایک بار پھر ہنگامی حالت نافذ کر دی ہے۔
حکومتی اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ عوامی سلامتی، امن عامہ، ضروری اشیاء اور خدمات کی بحالی کے مفادات کے پیش نظر ایسا کرنا درست ہے۔ معاشی بحران کی وجہ سے عوام میں سیاسی قیادت کے خلاف اس قدر غم و غصہ پایا جاتا ہے کہ اس کے سبب صدر گوٹابیا راجا پاکسے کو ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔ گزشتہ ہفتے فرار ہونے کے بعد انہوں نے پارلیمنٹ کو اپنا استعفیٰ بھیجا جسے جمعہ کے روز منظور کر لیا گیا۔ اس کے بعد وزیراعظم وکرما سنگھے نے عبوری صدر کے طور پر حلف اٹھایا ہے۔
ہفتے کے روز سری لنکا کی پارلیمنٹ کا اجلاس نئے صدر کے انتخاب کا عمل شروع کرنے کے لیے ہوا تھا اور اسی دوران بحران سے متاثرہ ملک کے لیے ایندھن کی ایک کھیپ بھی پہنچی جس سے حالات کچھ سنبھلے۔ سری لنکا نے بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے ایک بیل آؤٹ پیکج کے لیے فنڈز کی اپیل کی ہے تاہم ملک میں سیاسی ہنگامہ آرائی کے سبب اس پیکج سے متعلق مذاکرات میں تاخیر ہوئی ہے۔
Advertisement
وزیراعظم رانیل وکرما سنگھے نے جولائی کے پہلے ہفتے میں پارلیمنٹ میں اراکین کو بتایا تھا کہ ملک دیوالیہ ہو چکا ہے اور یہ سنگین معاشی بحران آئندہ برس کے اواخر تک برقرار رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج پر گفتگو کا انحصار قرض دہندگان کے ساتھ قرض کی تنظیم نو کے منصوبے کو حتمی شکل دینے پر منحصر ہے جو اگست تک ممکن ہو سکے گا۔ سری لنکا کے مرکزی بینک کے سربراہ نے امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کو بتایا ہے کہ رواں برس ملکی معیشت کے چھ فیصد سے بھی زیادہ سکڑنے کی توقع ہے۔