لیبیا میں پرتشدد واقعات، حریف وزیراعظم طرابلس سے فرار ہونے پر مجبور

66

لیبیا میں اس وقت مشرق اور مغرب میں دو حریف متوازی حکومتیں ہیں اور دونوں ہی کو مسلح گروہوں کے ساتھ ساتھ غیرملکی طاقتوں کی بھی حمایت حاصل ہے۔ دارالحکومت طرابلس میں اس وقت فسادات پھوٹ پڑے جب ان میں سے ایک فریق نے وہاں اپنی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی۔

گزشتہ روز حریف وزیراعظم فتحی علی عبدالسلام باش آغا کو متحارب ملیشیاؤں کے درمیان اچانک جھڑپیں شروع ہونے پر دارالحکومت طرابلس چھوڑنا پڑا۔ انہیں تین ماہ قبل ہی طبرق شہر میں واقع ملک کی مشرقی پارلیمنٹ نے نیا وزیراعظم منتخب کیا تھا۔

پارلیمانی فیصلے کے باوجود موجودہ وزیراعظم عبدالحمید الدبیبہ نے یہ کہہ کر اقتدار چھوڑنے سے انکار کر دیا کہ وہ کسی منتخب حکومت کے لیے ہی عہدہ چھوڑیں گے۔ عبدالحمید الدبیبہ کو دارالحکومت طرابلس میں طاقتور ملیشیا کی حمایت بھی حاصل ہے۔

دو متوازی حکومتوں کے حامیوں کے درمیان پرتشدد فسادات سے پہلے باش آغا نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ہم پرامن اور محفوظ طریقے سے دارالحکومت طرابلس پہنچے، استقبالیہ بھی شاندار تھا۔ بعد میں انہوں نے کہا کہ وہ محض شہریوں کی سلامتی اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانے اور خونریزی کو روکنے کے لیے شہر سے نکل آئے۔

Advertisement

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی خصوصی مشیر اسٹیفنی ولیمز نے اس واقعے سے متعلق ٹوئٹر پیغام میں لوگوں سے پرامن رہنے کی اپیل اور مسائل کے حل کے لیے اقوام متحدہ کے دفتر کو استعمال کرنے کی پیشکش کی۔

تیل کی دولت سے مالا مال لیبیا میں طویل عرصے سے سیاسی عدم استحکام ہے۔ 2011ء میں نیٹو کی حمایت یافتہ بغاوت میں ملک کے آمر صدر معمر قذافی کی ہلاکت کے بعد سے ملک تنازعات کا شکار ہے۔

لیبیا میں 2018ء میں صدارتی انتخابات ہونا تھے لیکن پھر انہیں پہلے دسمبر 2021ء تک ملتوی کیا گیا اور اب رواں برس جون تک مؤخر کر دیا گیا ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

@media print { body { color: inherit; /* Ensures that the color is maintained */ } }