یوکرینی جنگ کی وجہ سےدنیا بھر اور خصوصا براعظم یورپ ریکارڈ افراطِ زر کا شکار ہے۔ اس تناظر میں توانائی اور خوراک کی قیمتیں گزشتہ دس سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔
یوکرینی جنگ کے منفی اثرات اقوام عالم کی معیشتوں پر آئے روز گہرے ہوتے جا رہےہیں۔ افراطِ زر میں بے تحاشہ اضافے کے بعد اب اشیائے خور و نوش کی منڈیوں اور تیل کے ساتھ ساتھ کار سازی اور تعمیرات کے شعبوں میں بھی قیمتوں میں حیرت انگیز اضافہ ہو رہا ہے۔امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ رواں برس ستائیس رکنی یورپی یونین کو مجموعی طور پر سات فیصد سے زائد افراطِ زر کا سامنا ہو گا۔
مختلف یورپی ممالک میں مچھیروں اور کسانوں نے مجموعی مہنگائی کے تناظر میں اپنی پیدوار میں اضافہ کر دیا ہے۔ دوسری جانب پٹرول کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافے کی وجہ سے مال بردار ریل گاڑیوں اور سامان بردار ٹرکوں کی نقل وحرکت میں بھی کمی آئی ہے۔
خوراک کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے روزمرہ استعمال کے لیے بریڈ کی مختلف اقسام بھی مہنگی ہو چکی ہیں اور خاص طور پر پولینڈ سے بیلجیم تک اشیائے خوردونوش کی دوکانوں پر بریڈ مہنگے داموں فروخت کی جا رہی ہے۔
دوسری جانب، پولینڈ میں کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں ڈیڑھ سو فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ بعض یورپی حکومتوں نے ٹیکسوں کی مد میں کمی لانے کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کی امداد کے اشارے بھی دیے ہیں۔یورپی شہریوں نے فالتو اخرجات سے بھی ہاتھ کھینچنا شروع کر دیا ہے۔ اب وہ صرف ضروری اشیاء کی خریداری پر ہی اکتفا کر رہے ہیں۔
Advertisement
ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ موجودہ صورت حال نے ایک بڑے معاشی طوفان کے اٹھنے اور اقوام کو اپنی گرفت میں لینے کے واضح اشارے دے دیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کی معیشتیں ابھی کووڈ انیس کی تباہ کاری سے باہر نہیں نکلی تھیں کہ یوکرین جنگ نے پہلے سے تباہ حال معیشتوں کو مزید نچوڑنا شروع کر دیا ہے۔