جی سیون سمٹ میں شریک عالمی رہنماؤں نے ترقی پذیر ممالک کے لیے انفرسٹرکچر فنڈ کی مد میں چھ سو ارب ڈالر کی خطیر رقم فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ماہرین اسے ترقی پذیر ممالک میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔
دنیا کے امیر ترین ممالک پر مشتمل گروپ جی سیون کے رہنماؤں کی سمٹ جرمنی کے صوبے باویریا میں منعقد ہوئی۔ جرمن چانسلر اولاف شولس کی میزبانی میں ہونے والی اس سمٹ کا آغاز تر قی پذیر ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے مضمرات کا مقابلہ کرنے کے لیے چھ سوارب ڈالر کے ایک انفراسٹرکچر فنڈ کے اعلان کے ساتھ ہوا۔
“ہم خیرات نہیں دے رہے”
اس موقع پر امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ میں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ یہ کوئی مدد یا خیرات نہیں ہے۔ یہ ایک سرمایہ کاری ہے جس سے ہر ایک کوفائدہ پہنچے گا۔ اس میں امریکی عوام بھی اور دنیا کے دیگر ممالک کے لوگ بھی شامل ہیں۔ اس سے ہماری معیشتوں کو فروغ حاصل ہوگا۔
Advertisement
انفراسٹرکچر فنڈ کے مقاصد
جی سیون کے اس نئے فنڈ کے تحت ماحولیاتی تحفظ کے پروگرامز کے علاوہ دیگر پراجیکٹوں پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ اس میں انگولا میں شمسی کھیتی پر دو ارب ڈالر، آئیوری کوسٹ میں ہسپتال کی تعمیر کے لیے 320ملین ڈالر اور جنوب مشرق ایشیا میں علاقائی توانائی کی تجارت کو فروغ دینے کے لیے 40 ملین ڈالرکی رقم شامل ہے۔
اس حوالے سے یورپی یونین کمیشن کی سربراہ ارزولا فان ڈیئر لائن کا کہنا ہے کہ جی سیون کی یہ پیش کش ایک ‘پائیدار اور معیاری انفرااسٹرکچر‘ کی تعمیر کے لیے ہے۔
چینی ون بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ
چینی صدر شی جن پنگ نے بیلٹ اینڈ روڈ اقدام (بی آر آئی) سنہ 2013 میں شروع کیا تھا۔ اس میں سو سے زائد ممالک میں ترقی اور سرمایہ کاری کے اقدامات شامل ہیں۔ ان میں ریلوے نظام کی ترقی، بندرگاہوں اور شاہراہوں کی تعمیر سمیت متعدد منصوبے شامل ہیں۔ تاہم، ماضی میں بیجنگ پر یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ اپنے کھربوں ڈالر کے بی آر آئی پروجیکٹ کو آگے بڑھانے کے لیے کم آمدنی والے ممالک کو ناقابل واپسی کی حد تک قرضوں کے جال میں پھنسا رہا ہے۔
علاوہ ازیں، جرمن چانسلر اولاف شولز نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا ہے کہ موجودہ جغرافیائی سیاسی صورت حال کی وجہ سے بین الاقوامی انفراسٹرکچر کو فروغ دینے کی ہماری کوششیں بھی متاثر ہوئی ہیں۔ اس لیے ہم نے ماحولیات کو بہتر بنانے کے لیے، کاربن بشمول گیسوں کے کم اخراج جیسے موضوعات پرتبادلہ خیال کیا ہے۔جس سے روس کی جانب سے توانائی کو ہتھیار کے طورپر استعمال کرنے کے اقدامات کا کم از کم عارضی جواب دینے میں ہمیں مدد مل سکے۔