جرمن وزیر خارجہ کے دورہء یونان کے دوران متنازع ایجیئن جزائر کے حوالے سے یونان کی حمایت پر ترکی نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
ترک وزیر خارجہ مولود چاؤش اولو نے گزشتہ روز استنبول میں جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک کے ہمراہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اس تنازع میں ایک ثالث کی حیثیت سے جرمنی اپنی غیرجانبداری کھو چکا، ہم چاہتے ہیں کہ جرمنی مشرقی بحیرہ روم اور ایجیئن کے معاملے میں اپنا مؤقف متوازن رکھے۔ جرمنی کو یونان اور یونانی قبرص کی جانب سے اشتعال انگیزی اور پراپیگنڈے کا آلہء کار نہیں بننا چاہیے۔
اس سے قبل جمعہ کے روز ہی جرمن وزیر خارجہ بیئربوک نے یونان کے دارالحکومت ایتھنز میں میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ لیسبوس، شیوز، روڈز اور کئی دیگر جزائر یونان کا حصہ ہیں اور اس بارے میں کسی کو سوال کرنے کا حق نہیں۔ جرمن وزیر خارجہ جمعہ کی شام کو ہی یونان سے ترکی پہنچیں اور استنبول میں ترک ہم منصب سے ملاقات کے دوران اسی پیغام کو دہرانے کی کوشش کی۔
Advertisement
ان جزائر پر ترکی اور یونان کے درمیان دہائیوں سے تنازع چلا آ رہا ہے اور یورپی ممالک اس تنازع کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیتے رہے ہیں تاہم جرمن وزیر خارجہ نے اپنے پہلے دورہء یونان میں اس معاملے پر کھل کر یونان کی حمایت کر ڈالی۔ ادھر یونان نے جرمنی پر زور دیا کہ وہ ترکی کو عسکری ساز و سامان کی فراہمی روک دے۔ ترکی 214 کلاس کی چھ آبدوزیں بنانے کے لیے جرمن کمپنی کے ساتھ مشترکا منصوبے پر کام کر رہا ہے۔
ترکی کا کہنا ہے کہ اگر یونان معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جزائر پر اپنی فوج رکھتا ہے تو مشرقی یونان کے جزائر کی خود مختاری کو متنازع بنایا جا سکتا ہے۔ اس مؤقف کے ردعمل میں یونان نے ترکی پر الزام لگایا کہ وہ مشرقی بحیرہ ایجیئن کے جزائر پر مسلسل عسکری پروازیں کر رہا ہے۔
یونان اور ترکی میں کئی دہائیوں سے سمندری حدود اور توانائی کی تلاش کے لیے کھدائی کے حقوق پر تنازع ہے۔ قبرص کے حوالے سے بھی دونوں ملکوں میں جھگڑا ہے جس کا دو تہائی جنوبی علاقہ 1974ء سے جمہوریہ قبرص کے نام سے یونان کے پاس ہے جبکہ شمال کا ایک حصہ ترکی کے پاس ہے۔
Advertisement