وہیل روازنہ کی بنیاد پر 20 ملین مائیکرو پلاسٹک کے ذرات نگل رہی ہیں، تحقیق
ایک سائنسی تحقیق کے مطابق وہیل روازنہ کی بنیاد پر 20 ملین مائیکرو پلاسٹک کے ذرات نگل رہی ہیں۔
حال ہی میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق سمندروں میں پلاسٹک کی وجہ سے آبی حیات بری طرح متاثر ہو رہے ہیں جس میں دنیا کے سب سے بڑے جانور وہیل کا شمار بھی کیا جا رہا ہے۔
امریکی بحرالکاہل کے ساحل پرسانسدانوں نے وہیل کی تین اقسام بلیو وہیل، ہمپ بیک وہیل اور فن وہیل میں بڑی مقدار میں مائیکرو پلاسٹک کے ذرات کو دریافت کیا ہے۔
محققین نے خبردار کیا ہے کہ انتہائی آلودہ علاقوں یا اگر مستقبل میں پلاسٹک کی آلودگی میں اضافہ ہوتا رہا تو وہیل ایک دن میں 150 ملین ذرات نگل سکتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق وہیل کو مائیکرو پلاسٹک اور زہریلے کیمیکلز سے نقصان پہنچ سکتا ہے جب کہ پچھلے تحقیقی میں وہیل کی چکنائی میں پلاسٹک سے ماخوذ آلودگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
اس تحقیق کی قیادت کرنے والے کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی فلرٹن کے ڈاکٹر شیرل کہانے رپرٹ کا کہنا ہے کہ ’ہم نے جو کچھ بھی حاصل کیا وہ حیران کن تھا‘۔
Advertisement
انہوں نے کہا کہ واقعی روزانہ کی بنیاد پر بڑی تعداد میں پلاسٹک کا استعمال ہورہا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں لیکن ہمیں صحت سے متعلق درست معلومات کا علم نہیں اور اسی کو معلوم کرنے کے لیے یہ ہمارا پہلا قدم ہے۔
Advertisement
ڈاکٹر شیرل کہانے رپرٹ کے مطابق کیلیفورنیا کے ساحل سے کہیں زیادہ آلودہ سمندر دنیا میں موجود ہیں بشمول شمالی سمندر، بحیرہ روم اور جنوب مشرقی ایشیا کا سمندر۔
تحقیق کرنے والی ٹیم کے ممبر اور اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹرمیتھیو ساوکا کا کہنا ہے کہ ’ان علاقوں میں وہیل مچھلیاں کو کھانا یقینی طور پر خطرناک ہوسکتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ وہیل کے بارے میں ایک افسوسناک کہانی ہے لیکن یہ کہانی ہمارے بارے میں بھی ہے کیونکہ اس سے انسانی خوراک بھی متاثر ہوتی ہے‘۔
واضح رہے کہ پلاسٹک کے فضلے کی بڑی مقدار ماحول میں موجود ہے اور مائیکرو پلاسٹک نے ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی سے لے کر گہرے سمندروں تک پورے سیارے کو آلودہ کر دیا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کم از کم 1500 جنگلی انواع موجود ہیں جو پلاسٹک کھارہے ہیں جب کہ لوگ پلاسٹک کے چھوٹے ذرات کو خوراک، پانی اور سانس لینے کے ساتھ بھی استعمال کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ رواں سال مارچ میں انسانی خون میں مائکرو پلاسٹکس کی موجودگی کا انکشاف ہوا تھا۔
Advertisement