چینی شہر شنگھائی میں کووڈ انیس کی وبا کو عالمی وبا قرار دیا گیا تھا تاہم، شنگھائی میں کورونا کی حالیہ وبا میں ہونے والی ہلاکتیں زیادہ ضرور ہیں لیکن کئی علاقوں کے مقابلے میں یہ نسبتاً کم ہیں۔
غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق شنگھائی میں پچھلے ایک ماہ کے دوران کسی بھی بیمار شخص کے ہلاک ہونے کا نہیں بتایا گیا ہے۔ اس چینی شہر میں وبا رواں برس مارچ میں پھیلی تھی تاہم، وبا پھیلنے کے ابتدائی ایام میں مرنے والے شہریوں کی تعداد پہلے بڑھی اور پھر گھٹ کر نہ ہونے کے برابر ہوگئی۔
چین کے خصوصی انتظام کے علاقے ہانگ کانگ میں رواں برس فروری میں کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے کے بعد ہونے والی ہلاکتیں نو ہزار سے زائد تھیں۔ اس علاقے میں بارہ لاکھ افراد کووڈ وائرس کی لپیٹ میں آئے تھے۔
اس تناظر میں بین الاقوامی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو ہانگ کانگ اور شنگھائی میں ہونے والی ہلاکتوں میں بظاہر فرق محسوس ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق شنگھائی میں بھی کورونا اموات کا کم بتایا جانا بیجنگ حکومت کی سابقہ پالیسی کا تسلسل محسوس ہوتا ہے۔
امریکی ریاست واشنگٹن کی سینٹ لوئی یونیورسٹی سے منسلک سینیئر ہیتھولوجسٹ مائی ہی کا کہنا ہے کہ سخت لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہلاکتوں کی اصل تعداد کا تعین کرنا ممکن نہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر کوئی بیمار اپنے اپارٹمنٹ میں مرجاتا ہے تو اس کو کیسے شمار کیا جائے گا اور ایسا ہی ووہان میں بھی ہوا تھا۔ مائی ہی سن 2020 کی ووہان پر کی جانے والی ایک ریسرچ کے مصنف بھی ہیں۔
دوسری جانب، شنگھائی کی بلدیاتی حکومت نے بزرگ شہریوں کو ویکسین لگانے کے لیے زیادہ رقم مختص کی ہے۔ اس شہر میں ساٹھ برس یا اس سے زائد عمر کے ویکسین شدہ افراد میں سے اڑتیس فیصد کو اب بُوسٹر بھی لگا دیا گیا ہے
یادرہے، ایک اندازے کے مطابق صرف ووہان میں چھتیس ہزار انسان کورونا وبا میں مارے گئے تھے۔ یہ تعداد سرکاری تعداد کے مقابلے میں دس گنا زیادہ ہے۔