غیر جانبدار ریاستوں کا درجہ رکھنے والے کئی ممالک یوکرین جنگ کے بعد سے اپنی حیثیت پر نظرثانی کر رہے ہیں۔
سوئیڈن کی غیر جانبدارانہ حیثیت ملکی دستور میں موجود ہے۔ انیسویں صدی کے بعد سے یہ ملک کسی تنازع میں شامل نہیں ہوا۔ یورپی یونین کا رکن بننے کے بعد بھی سوئیڈن نے خود کو غیر جانبدار قرار دیا تاہم اب یوکرین کی وجہ سے سوئیڈش حکومت کا مؤقف تبدیل ہوا ہے اور اس نے یوکرین کو ٹینک شکن میزائل فراہم کیے ہیں۔
فن لینڈ کے سابق وزیراعظم الیکسانڈر اسٹوب نے رواں برس مارچ کے اختتام پر کہا تھا کہ ان کا ملک نیٹو کی رکنیت کی درخواست دے سکتا ہے۔ فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت کے حوالے سے عوامی حمایت بتدریج بڑھ رہی ہے۔ واضح رہے کہ فن لینڈ کی روس کے ساتھ 1300 کلومیٹر طویل سرحد ملتی ہے۔
نیٹو نے بھی سوئیڈن اور فن لینڈ کو شمولیت کی درخواست منظور کیے جانے کا گرین سگنل دیا ہے۔
1815 میں سوئٹزرلینڈ کے حکام نے تنازعات اور جنگوں سے دور رہنے کا فیصلہ کیا تھا تاہم اب روس پر عائد پابندیوں کا حصہ بنتے ہوئے سوئٹزرلینڈ نے بھی صدر پیوٹن اور وزیر خارجہ سرگئی لاوروف پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
1955 میں آسٹریا نے مستقل غیر جانبداری برقرار رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ بعد میں اس فیصلے میں نرمی لاتے ہوئے آسٹریا نے نیٹو کی فوجی مشقوں میں شرکت بھی کی تھی۔ اب یوکرین جنگ نے آسٹریا کی غیر جانبداری پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
برطانیہ سے 1921 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد سے آئرلینڈ غیر جانبدارانہ حیثیت اختیار کیے ہوئے ہے۔ آئرش آبادی کی اکثریت نیٹو مخالف ہے لیکن اب آئرلینڈ میں غیر جانبداری برقرار رکھنے پر سیاسی اور عوامی حلقوں میں بحث جاری ہے۔
قبرص میں ہزاروں روسی باشندے آباد ہیں۔ کئی روسی امراء نے قبرص میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ قبرص حکومت نے یورپی یونین کی پابندیوں کے تناظر میں سخت مؤقف اپنا کر روسی امراء سے خاص رعایتیں واپس لے لی ہیں۔
یوکرینی جنگ کے تناظر میں یورپی یونین کی رکن ریاست مالٹا میں بھی غیر جانبدار رہنے کی بحث شدید ہو چکی ہے۔ مالٹا حکومت نے روسی اشرافیہ کو گولڈن پاسپورٹ دینے کا سلسلہ معطل کر دیا ہے۔
1994 میں سابق سوویت یونین سے آزادی حاصل کرنے والے ملک جمہوریہ مالدووا کی غیر جانبدار حیثیت خطرے میں ہے۔ مالدووا کا ایک علاقہ ٹرانس نِسٹریا روس نواز علیحدگی پسندوں کے کنٹرول میں ہے۔