بھارت کی سب سے بڑی ریاست اُترپردیش کے ضلع اُناؤ کے ہسپتال میں کام کرنے والی ایک 19 سالہ مسلمان نرس کو اجتماعی زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔
لڑکی کے اہل خانہ کی درخواست پر پولیس نے تین نامزد ملزموں کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے تحقیقات شروع کر دی ہیں جبکہ ہسپتال کو سیل کر دیا گیا ہے۔
انڈیا ٹوڈے کی خبر کے مطابق متاثرہ لڑکی کی شناخت 19 سالہ نازیہ کے نام سے ہوئی ہے جو ٹکانا گاؤں کی رہنے والی تھی۔ لڑکی کی ہسپتال میں بطور نرس ملازمت کا پہلا دن تھا جبکہ اس ہسپتال کا افتتاح محض پانچ روز قبل یعنی 25 اپریل کو مقامی ایم ایل اے نے کیا تھا۔
لڑکی کی والدہ نے میڈیا کو بتایا کہ ہفتے کی صبح انہیں ہسپتال سے فون آیا کہ ان کی بیٹی نے پھانسی لگا کر خود کشی کرلی ہے۔ جب وہ ہسپتال پہنچیں تو دیکھا کہ نازیہ کی لاش چھت کے ستون سے لٹکی ہوئی تھی۔
نازیہ کی والدہ نے بتایا کہ ان کی آٹھ بیٹیاں ہیں اور تین بڑی بیٹیاں بھی کام کرتی ہیں۔ شوہر کی وفات کے بعد سے بیٹیاں ہی گھر کا خرچ چلاتی ہیں۔ نازیہ نے خود کما کر نرسنگ کی تعلیم حاصل کی تھی۔
مقامی پولیس انسپکٹر برجیندر ناتھ شکلا کے مطابق واقعے کی اطلاع ملنے پر جب پولیس ہسپتال پہنچی تو ہسپتال مالک سمیت تینوں ملزمان وہاں موجود تھے۔ لاش کے پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ میں پھانسی سے قبل موت کا معاملہ سامنے آیا ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی اناؤ میں خواتین کے خلاف بہیمانہ جرائم منظرعام پر آ چکے ہیں۔ 2017ء میں ایک 17 سالہ لڑکی سے زیادتی اور پھر اس کے والد کو پٹوانے کے کیس میں، جس میں والد کی موت ہو گئی بی جے پی کے ایم ایل اے کلدیپ سینگر کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
اگست 2019ء میں ایک لڑکی اور اس کی والدہ نے اناؤ کے ضلعی مجسٹریٹ کے دفتر کے سامنے خود سوزی کی کوشش کی کیونکہ اجتماعی زیادتی کی شکایت کے بعد بھی کوئی گرفتاری نہیں ہوئی تھی۔ اسی طرح دسمبر 2019ء میں بھی ایک 23 سالہ لڑکی کو زیادتی کے بعد جلا دیا گیا تھا۔