بھارتی معاشرے میں تیزی سے پنپنے والی ہندو انتہا پسند سوچ کا زہر پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے۔ حال ہی میں ریاست اتر پردیش کے شہر علی گڑھ میں ایک مسلمان پروفیسر کو کالج میں نماز پڑھنے پر ایک ماہ کی جبری رخصت پر بھیج دیا گیا۔
اخبار نیشنل ہیرالڈ انڈیا کے مطابق علی گڑھ کے شری ورشنے کالج کی انتظامیہ نے یہ فیصلہ منگل کو ایک وڈیو وائرل ہونے کے بعد کیا جس میں پروفیسر ڈاکٹر شاہ رازق خالد (ایس آر خالد) کالج کے لان میں نماز ادا کرتے نظر آ رہے ہیں۔
اس وڈیو کے سامنے آتے ہی دائیں بازو کے سخت گیر ہندو نوجوانوں نے پروفیسر ایس آر خالد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ شروع کر دیا تھا۔ ایک طالب علم رہنما دیپک شرما نے کہا ہے کہ پروفیسر ایس آر خالد کی جانب سے کالج کے اندر نماز ادا کرنا پرامن ماحول کو خراب کرنے کی کوشش ہے۔ پروفیسر کے خلاف کارروائی نہ کی گئی تو وہ بھی کالج میں ہنومان چالیسا پڑھیں گے۔
Advertisement
کالج کے پرنسپل پروفیسر انیل کمار گپتا نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی یُووا مورچہ اور اکھیل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے طالب علم رہنماؤں نے پروفیسر پر نظم و ضبط کی خلاف ورزی اور کھلے عام نماز ادا کرکے امن کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کا الزام عائد کیا ہے جس کی انکوائری کی جا رہی ہے۔
اس کے علاوہ گاندھی پارک اور کوارسی پولیس اسٹیشنوں میں بھی مختلف افراد کی جانب سے پروفیسر ایس آر خالد کے خلاف شکایت درج کرائی گئی ہے تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ وہ شری ورشنے کالج کی انتظامیہ کی جانب سے رپورٹ موصول ہونے کے بعد ہی کوئی کارروائی کرے گی۔
بھارت میں 2014ء سے زیر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیراعظم نریندر مودی کا بویا ہوا انتہاپسند مسلم دشمنی کا بیج جڑ پکڑ چکا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران مسلمانوں کے خلاف نہ صرف پُرتشدد واقعات میں کافی اضافہ دیکھا جا رہا ہے بلکہ مختلف مقامات اور شہروں کے مسلم ناموں کو تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ مساجد اور مغلیہ دور میں تعمیر کردہ عمارات کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔