ملک بھر میں جاری سیاسی صورتحال ہمیشہ کی طرح بحران کا شکار ہے اور اس دوران سیاسی جماعتوں میں سب سے بڑا محاذ آرائی کا معاملہ 90 روز میں انتخابات کروانا بن گیا ہے۔ اگر تکنیکی اعتبار سے دیکھا جائے تو 90 روز کی مدت تو کب کی گزر چکی ہے۔ الیکشن کمیشن پہلے ہی واضح کرچکا ہے کہ حلقہ بندیوں کا عمل 4 ماہ سے قبل مکمل کرنا تکنیکی لحاظ سے ممکن نہیں۔ الیکشن کمیشن کا یہ بھی فرمانا ہے کہ ہم حلقہ بندی اور انتخابی فہرستوں کی تیاری کا کام ساتھ ساتھ کر رہے ہیں اور اس بات کا ذکر تو پہلے ہی ہوچکا کہ پیپلز پارٹی نے 90روز میں انتخابات کی جو پالیسی اپنائی ہے، ان کے اپنے اقدامات سے مطابقت نہیں رکھتی۔
یہ ذکر بھی ہوچکا کہ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں تمام سیاسی جماعتیں جانتی تھیں اگر ہم نے مردم شماری کو منظوری دے دی اور نوٹیفائی کردیا تو الیکشن کمیشن کیلئے 90 روز میں انتخابات ناممکن سی بات بن جائے گی، تاہم پیپلز پارٹی اور ن لیگ سمیت دیگر جماعتوں نے اتفاقِ رائے سے منظوری دے دی اور اب عوام کے سامنے الگ الگ پراپیگنڈہ جاری ہے۔ پی پی پی بھی جانتی ہے کہ 90 دن والی بات انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اور دستخطوں کی مدد سے ختم کردی۔ اگر 90روز میں انتخابات کرانے ہی تھے تو 2017 ء مردم شماری کے لحاظ سے کرائے جاسکتے تھے جبکہ اس تمام تر صورتحال میں عوام کا ماننا یہ ہے کہ انتخابات 90 روز میں ہو یا ایک سال بعد، ملک کا معاشی بحالی کی جانب سفر جاری رہنا چاہئے اور انہیں مہنگائی سمیت دیگر معاشی مسائل سے نکالنا ہر باضابطہ اور نگران حکومت کا فرض ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عوام کی بڑی تعداد اس وقت معاشی مسائل کے انبار میں گھری ہوئی ہے جنہیں اپنے گھر میں موجود بچوں اور گھر کے دیگر افراد کی زندگی کی فکر لاحق ہے۔ انہیں غیر منصفانہ نظام کا سامنا ہے جس کے پیشِ نظر عوامی مسائل حل ہونے کی راہ کہیں سے ہموار ہوتی نظر نہیں آتی۔ لوگوں کے گھروں میں فاقے شروع ہوچکے ہیں اور انہیں فوری ایمرجنسی کھانے کی ضرورت ہے۔ زمینی حقائق یہ کہتے ہیں کہ پاکستان انتہائی سنگین مشکلات کا شکار ہے جسے عوام الناس کے مسائل حل کرنے کیلئے کوئی انقلابی پیشرفت چاہئے۔ جہاں تک 90 روز میں انتخابات کا معاملہ ہے تو اس میں ہر فریق کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔ الیکشن کمیشن کا کام بر وقت انتخابات یقینی بنانا ہے، تاہم کمیشن کو مردم شماری کے حوالے سے جو نئی ذمہ داریاں دی گئی ہیں، ان سے عہدہ برآ ہونے کیلئے مناسب وقت بھی درکار ہےاس بات سے تو کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ عام انتخابات جمہوری عمل کی کامیابی کیلئے انتہائی ضروری ہیں جن کی مدد سے عوام اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے اپنے پسندیدہ رہنما کو چن کر اسے قومی اسمبلی میں آنے کا موقع دیتے ہیں اور پھر یہی اراکینِ اسمبلی آگے چل کر ایک وزیر اعظم کاا نتخاب کرتے ہیں جس کے پاس ملک چلانے کیلئے سب سے زیادہ اختیارات ہوتے ہیں۔ یہی اراکین صدرِ مملکت کا انتخاب بھی عمل میں لاتے ہیں جو کسی نہ کسی حد تک وزیر اعظم کا احتساب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسی طرح اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ سمیت دیگر اہم عہدیداران کا انتخاب عمل میں لایا جاتا ہے۔
تاہم موجودہ دور میں عام انتخابات کے انعقادکو سیاسی جماعتوں کی جانب سے تاخیر کا شکار کیا گیا اور اب اسی بات کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل میں 90 روز کے انتخابات کی بات ہوئی تھی یا نہیں ہوئی تھی۔ بات کیا ہوئی اور دستخط کس چیز پر کیے گئے، ان دونوں باتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ تمام جماعتوں نے اتفاقِ رائے سے نئی مردم شماری کی منظوری دی اور یہ چیز ریکارڈ پر آچکی ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ ایسے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے بیانات بھی جاری کیے جارہے ہیں کہ ہمارے ذمے حلقہ بندی، انتخابی فہرستوں کی تیاری اور پھر دیگر فرائض ہیں، سب کی انجام دہی کیلئے وقت چاہئے
یوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جوں جوں نگران حکومت کی مدتِ اقتدار بڑھے گی، اسی کے ساتھ عوام کی قوت برداشت جواب دیتی جارہی ہوگی اورآج بجلی کے بلوں کو جلانے کی حد تک جلوس جلسوں کا انعقاد کیا جارہا ہے اور جتنی مہنگائی بڑھتی جارہی ہے جس طرح پیٹرول اور خوراک اور دیگر ضرویات زندگی کی اشیا کی قیمتیں بڑھتی جارہی ہیں وہ ہر تنخواہ دار شخص کی پہنچ سے باہر ہوچکی ہے اورایسے میں کہیں صورتحال انقلاب کا راستہ نہ لینا شروع کردے کیونکہ عوام کی دلچسپی اس وقت الیکشن یا کسی اور چیز میں نہیں بلکہ زندگی کی ڈور برقرار رکھنے کی تگ و دو تک محدود ہوچکی ہے۔
سیاسی جماعتوں کے مابین تنازعات کی کشیدگی میں بھی اضافہ دیکھنے میں آسکتا ہے۔ نگران حکومت بظاہر تو 90 روز میں الیکشن کرانے کیلئے تیار نظر آتی ہے لیکن 90 روز میں الیکن کروانا تو تقریبا ناممکن نظر آتا اور اس کی ذمہ داری ایک بار پھر الیکشن کمیشن کے ہی کاندھوں پر ڈالی جارہی ہے۔ معاملے پر صدرِ مملکت نے بھی چیف الیکشن کمشنرکو بلا بھیجا، تاہم بات نہ بن سکی اور چیف الیکشن کمشنر نے ملاقات سے انکار کردیا، جو صدر کے عہدے کی توہین سے کم نہیں اور عوام الناس کیلئے بھی ناخوشگوار حیرت کاباعث ہے۔
دراصل ماضی کے صدورِ مملکت نے آئین کی دفعہ 58 ٹو بی کا استعمال اس تواتر سے کیا اور یکے بعد دیگرے اتنی قومی اسمبلیاں توڑی گئیں اور اتنے وزرائے اعظم کو اپنے عہدوں سے ہٹایا گیا کہ تمام سیاستدانوں، بالخصوص پارٹی سربراہان کے مابین جو عموماً خود وزیر اعظم بننے کے خواہاں ہوتے ہیں، یہ تشویش پیدا ہوئی کہ صدرِ مملکت کو اتنے اختیارات ہی کیوں دئیے جائیں کہ وہ ہر بار 5 سال کی مدت ختم ہونے سے قبل ہی اسمبلی توڑ دیں۔ اس لیے ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ صدر سے یہ اختیار ہی چھین لیا جائے ، یوں اراکینِ اسمبلی نے اسی مقصد سے قانون سازی کی اور صدرِ مملکت کو اضافی اختیارات سے محروم کردیا گیا۔
پھر بھی صدرِ مملکت آئینی اعتبار سے ایک مقدم ترین عہدہ ہے جسے آج بھی پاک فوج کا سپریم کمانڈر مانا جاتا ہے اور صدر کے دستخط کے بغیر کوئی بھی بل قانون کی حیثیت اختیار نہیں کرسکتا۔ بہتر تھا کہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا اور صدر ڈاکٹر عارف علوی کی ملاقات ہوجاتی جس کے بعد الیکشن کی تاریخ سامنے لانے یا نہ لانے کا فیصلہ کیاجاسکتا تھا