چیف جسٹس صاحب! اردو کے اپنے فیصلے پر بھی عمل کریں!!۔
تحریر: جوسف علی
اردو کو ہماری قومی اور دفتری و سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنا ایک ڈراو’نا خواب بن کر رہ گیا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت قائداعظم نے واضح طور پر اردو کو سرکاری و دفتری زبان کا درجہ دینے پر زور دیا تھا۔ چونکہ اردو پاک عوام کے 95% طبقہ میں بولی اور سمجھی جانے والی رابطہ عامہ کی زبان ہے۔ لھذا ہمارا آئین بھی اردو زبان کی قومی و سرکاری حیثیت کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ 1973 کے دستور کے مطابق 1988ء میں اردو کو دفتری اور سرکاری سطح پر رائج ہو جانا چاہئے تھا مگر 35سال گزر جانے کے باوجود اردو کو ابھی تک سرکاری زبان کی حیثیت سے رائج نہیں کیا جا سکا ہے۔
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل ایک 12سالہ پرانی پٹیشن پر فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کو حکم دیا تھا کہ اردو کو فوری طور پر دفتری زبان کے طور پر رائج کیا جائے۔ عدالت نے اپنے حکم میں قرار دیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل251 سے راہ فرار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس حکم نامہ میں حکومت پر زور دیا گیا تھا کہ تمام قوانین، مقابلے کے امتحانات اور اہم عدالتی فیصلوں کا اردو میں ترجمہ کیا جائے۔ اس عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس فیصلے پر عملدرآمد کی رپورٹ 3ماہ کے اندر عدالت کو پیش کی جائے۔ لیکن آتی جاتی سب حکومتیں نہ صرف آئین پر عملدرآمد نہ کرنے کا ارتکاب کرتی رہی ہیں بلکہ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں دیئے گئے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی خلاف ورزی کر کے ‘توہین عدالت’ کی مرتکب بھی ہوتی رہی ہیں۔
حکومتوں کا یہ طرزعمل اپنی جگہ مگر سپریم کورٹ کو تو اپنے اس فیصلے کی پاسداری کرنی چاہئے تھی۔ ہم نے 17ستمبر کے اپنے ایک کالم بعنوان "قاضی فائز عیسی صاحب، تھوڑی سی ہمت اور چایئے” کے عنوان سے جسٹس صاحب کے اس اقدام کو سراہا تھا جس میں انہوں نے آتے ہی پہلا قدم یہ اٹھایا تھا کہ عدالت عظمی میں ان کے 18ستمبر کے پہلے زیر سماعت کیس سمیت آیئندہ سماعت میں آنے والے تمام مقدمات کی فہرست (کاز لسٹ) اور فیصلے انگریزی کی بجائے اردو میں جاری ہونگے۔ اس سے یہ امید پیدا ہو گئی تھی کہ پاکستان کی 76سالہ تاریخ میں اردو زبان کو عدالتی اور دفتری زبان کے طور پر لاگو کرنے کا یہ فیصلہ پہلی بار کیا گیا یے تو وہ دن دور نہیں ہیں جب اردو پاکستان کی تعلیمی، عدالتی اور سرکاری و دفتری زبان ہو گی۔
لیکن حد درجہ افسوس ہے کہ بعد میں جب پاکستان کی تاریخ میں جسٹس قاضی فائز عیسی کے حکم پر پہلی بار عدالتی کارروائی کو ٹی وی پر براہ راست دکھایا جا رہا تھا تو عزت مآب چیف جسٹس قاضی فائز عیسی سمیت تمام ججز اور وکلاء سماعت اور سوال و جواب انگریزی زبان میں کرتے رہے تھے۔ اگر خود معزز چیف جسٹس اور جج صاحبان عدالت عالیہ کا اپنا ہی فیصلہ خود پر لاگو نہیں کر سکتے، اور کمرہ عدالت میں بھی اس پر عملدرآمد نہیں کیا جا سکتا تو پھر پورے ملک میں اسے کیسے لاگو کیا جانا ممکن ہے؟
ہماری عدلیہ (اور حکومتیں) آج بھی کس قدر غلامانہ ذہنیت رکھتی ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ 1694ء میں، انگلینڈ کے بادشاہ ولیم نے ایک دو دن کے سوگ کیلئے وکلاء اور ججز کو کالے کپڑے پہننے اور احتراما سر کو جھکانے کی ہدایت کی تھی، جب ملکہ مریم چیچک کی بیماری کے ہاتھوں ہلاک ہوئی تھی۔ لیکن ہماری عدلیہ اس "گوری” ملکہ کی خاطر عوامی سوگ کا یہ لباس آج بھی پہنتی ہے، آج بھی اپنے سروں کو جھکاتی ہے اور آج بھی اپنے فیصلے آزادی حاصل کرنے کے باوجود اپنی قومی اردو زبان کی بجائے غیر ملکی زبان انگریزی میں لکھتی ہے
ہمارے ہاں انگریزی کو نوآبادیاتی دور کی "باقیات” کے طور پر رائج رکھا گیا ہے۔ ہمارے جسٹس صاحبان، ججز اور وکلاء انگریزی کو عدالتی زبان کے طور پر برقرار رکھنے میں تفاخر محسوس کرتے ہیں۔ ہماری خوئے غلامی اور تنگی داماں کا اندازہ کریں کہ جو عدالتی عہدیداران، ججز اور وکلاء وغیرہ انگریزی زبان پر ملکہ رکھتے ہیں اور مقدمات کی سماعت کے دوران زیادہ انگریزی "بگارتے” ہیں انہیں غیر ضروری طور پر قابل اور بڑے لائق فائق سمجھا جاتا ہے، حالانکہ یہ سراسر "زہنی غلامی” اور "احساس کمتری” کی علامت ہے۔
اسی طرح ہماری تمام عدالتوں میں جج صاحبان کو "مائی لارڈ!” یا "یور آنر!” وغیرہ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے جو استعماری دور میں عدالتی کارروائی کا سامراجی انداز ہے۔ گوگل کر کے دیکھ لیں انگریزی لفظ "لارڈ” (Lord) کا مطلب "رب” اور "یا خدا” کے ہیں۔ یوں مائی لارڈ کے معنی میرے خدا یا میرے مالک کے ہیں، اور یہی الفاظ ایک جج کی "خوشامد” کرنے اور اسکی "شان” بڑھانے کے لیئے استعمال کیئے جاتے ہیں۔ بصورت دیگر یہ تکیہ کلام ایک طرح کی مذہبی گستاخی کے ضمرے میں آتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب! ایک نامی گرامی، اصول پرست اور انصاف کے داعی چیف جسٹس ہیں۔ پاکستان کی عوام کو ان سے عدالتوں میں موجود اس پسماندہ اور غلامانہ سوچ کا قلع قمع کیئے جانے کی امیدیں ہیں۔ وہ چاہیں تو قائداعظم کے فرمان اور آئین کے مطابق اردو کو عدالتی اور دفتری زبان کا درجہ دلوا سکتے ہیں۔ لیکن معلوم نہیں کیا وجہ ہے کہ وہ بھی اردو کی بحالی کے جسٹس جواد ایس خواجہ اور خود اپنے ہی فیصلے سے کیوں پیچھے ہٹ گئے ہیں؟ آزادی کا تو یہی مطلب ہے کہ ہم اپنے فیصلے آزادانہ طور پر خود کریں۔