امریکی اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے گزشتہ روز اپنے ایک بیان میں کہا کہ چین پر امریکی عدالتی نظام میں مداخلت کا الزام عائد کردیا۔
تفصیلات کے مطابق اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے 13 چینی شہریوں پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے چینی انٹیلی جنس کے لیے کام کیا۔
میرک گارلینڈ نے کہا کہ تین الگ الگ مقدمات سے پتہ چلتا ہے کہ چین کی حکومت نے امریکہ میں افراد کے حقوق اور آزادیوں میں مداخلت کرنے کی کوشش کی ہے، اور ہمارے عدالتی نظام کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے جو ان حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے دو چینی جاسوسوں کے خلاف بھی الزامات عائد کیے اور کہا کہ یہ مبینہ طور پر چین میں قائم عالمی ٹیلی کام کمپنی کے خلاف وفاقی مقدمے میں مداخلت کر رہے تھے۔
Advertisement
امریکہ محکمہ کی دستاویز کے مطابق اس چینی ٹیلی کام کمپنی کو نیویارک کے علاقے بروکلین میں وفاقی مقدمے کا سامنا ہے، یہ بات قابل ذکر ہے کہ فرد جرم میں کمپنی کا نام نہیں بتایا گیا لیکن تحقیقات سے واقف ایک شخص نے امریکی نیوز چینل کو تصدیق کی کہ یہ کمپنی ’’ہواوے‘‘ ہے۔
دونوں مبینہ جاسوسوں پر ہواوے کے خلاف محکمہ انصاف کی تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ اور محکمہ انصاف کے دیگر عہدیدار قومی سلامتی نے اہم امور کے حوالے سے ایک اہم اعلان کا بھی کہا ہے۔
محکمہ انصاف نے ایک پریس ریلیز میں کہا کہ یہ مقدمات امریکہ میں ایک ریاست کے نمائندوں کی طرف سے بدنیتی پر مبنی سکیموں اور مبینہ مجرمانہ کی سرگرمیوں سے متعلق ہیں۔
دو مبینہ چینی جاسوسوں جوچن ہی اور جینگ وانگ کے 2017 میں شروع ہونے والے اس کیس میں ملوث قانون نافذ کرنے والے اہلکار کے ساتھ تعلقات تھے۔
فرد جرم کے دستاویزات کے مطابق جوچن ہی اور جینگ وانگ کا خیال تھا کہ انہوں نے اہلکار کو چینی ایجنٹ کے طور پر بھرتی کیا تھا، لیکن یہ اہلکار ایف بی آئی کی نگرانی میں ایک ڈبل ایجنٹ کے طور پر کام کر رہا تھا اور امریکہ کے ساتھ اپنی وفاداری برقرار رکھے ہوئے تھا۔
استغاثہ نے بتایا کہ جب ہواوے کیس کی تحقیقات شروع ہوئی تو دونوں نے امریکی عہدیدار سے گواہوں، مقدمے کے شواہد اور ایسے نئے الزامات کے بارے میں معلومات طلب کیں جو ہواوے کے خلاف لائے جا سکتے ہیں۔اس کام کے بدلے میں دونوں نے امریکی عہدیدار کو ہزاروں ڈالر نقد اور زیورات ملے۔