بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے کھرگون علاقے میں ہندو مسلم فسادات میں بھارتی پولیس کی جانبداری پوری دنیا کے سامنے عیاں ہو گئی۔
بھارتی پولیس نے کھرگون میں ہندو مسلم فسادات میں دونوں ہاتھ سے محروم مسلمان وسیم شیخ کو بھی ملزم قرار دے دیا۔ پولیس نے معذور وسیم شیخ کی دکان بھی توڑ دی۔
مدھیہ پردیش کے کھرگون میں رام نومی پر 10اپریل کو ہونے والے تشدد اور پولیس کے جبر کی داستان اب ایک ایک کر کے سامنے آرہی ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق کھرگون میں تشدد کے 10 دن بعد حالات تو پُرامن ہیں، لیکن انتظامیہ کے ذریعہ تشدد کے نام پر مقامی لوگوں کو جو زخم دیئے گئے ہیں، وہ بھرنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔
کھرگون کے سنجے نگر میں رہنے والے وسیم شیخ جو دونوں ہاتھوں سے معذور ہیں، انہیں بھی پولیس کے ذریعہ ملزم بتا کر ان کی دکان کو بھی توڑا گیا۔
جبکہ دوسری جانب تشدد میں کپرگون اسلام پورہ سے لا پتہ ادریس عرف صدام کی لاش اندور کے اسپتال میں پائے جانے سے ایک نئی سیاست شروع ہوگئی ہے۔
صدام کی موت اور دونوں ہاتھوں سے معذور وسیم شیخ کی دکان توڑنے کے معاملے میں وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ معاملہ درج کیا گیا ہے اور اس کی جانچ کی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ مدھیہ پردیش کے کھرگون میں 10 اپریل کو رام نومی جلوس کے دوران تشدد ہونے کے سبب شہر میں سخت کرفیو کا نفاذ کردیا گیا تھا۔
حالات سازگار ہونے کے بعد جب کرفیو میں کچھ نرمی دی گئی تو دونوں ہاتھوں سے معذور وسیم شیخ اپنی دکان دیکھنے کے لئے گئے، لیکن وہاں پر دکان کی جگہ اس کے ٹوٹے ہوئے حصے ملے۔
وسیم شیخ نے مقامی میڈیا کو اپنا درد بیان کرتے ہوئے بتایا کہ فسادی ہونے کے الزام میں میری دکان بھی توڑ دی گئی ہے۔ میں فسادی کیسے ہو سکتا ہوں جبکہ میرے دونوں ہاتھ ہی نہیں ہیں۔ میں تو خود سے کھانا کھانے اور پانی پینے کے لئے بھی دوسروں کا محتاج ہوں۔
معذور وسیم شیخ کا کہنا تھا کہ میری دکان توڑنے سے پہلے انتظامیہ کے ذریعہ مجھے نہ تو اطلاع دی گئی ہے اور نہ ہی اس سلسلہ میں مجھے کوئی نوٹس دیا گیا۔
وسیم شیخ نے کہا کہ میں پیشے سے پینٹر تھا، پانچ جنوری 2005 کو کرنٹ لگنے کے سبب میرے دونوں ہاتھ شدید طورپر زخمی ہوگئے اور ڈاکٹروں کے ذریعہ میری جان بچانے کے لئے میرے ہاتھ کو کاٹنا پڑا تھا۔ پیٹ اورپیر میں زخم کے نشان اب بھی ہیں۔
موہن ٹاکیز علاقہ میں بسکٹ کی دکان لگا کرخاندان کا پیٹ پال رہا تھا۔ اب تو میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے، جس سے گھر کے لوگوں کی کفالت کر سکوں۔