برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اپنے خلاف پارٹی میں بغاوت کے باوجود اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
گزشتہ روز برطانیہ کی حکمراں جماعت کنزرویٹو پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ نے بورس جانسن پر اعتماد کے ووٹ کی کارروائی میں حصہ لیا جہاں 211 ارکان نے ان کے حق میں اور 148 ارکان نے ان کے خلاف ووٹ دیے، یعنی انہوں نے 48 ووٹوں کی برتری سے اپنی وزارت عظمیٰ کو بچا لیا ہے۔
کمیٹی آف بیک بینچ کنزرویٹوز کے چیئرمین سر گراہم بریڈی نے خفیہ رائے شماری کے بعد اعلان کیا کہ پارلیمانی جماعت کو وزیراعظم پر اعتماد ہے۔
بورس جانسن نے اپنے ان ساتھیوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے ان کا ساتھ دیا اور کہا کہ اب ہمیں بطور حکومت اور پارٹی متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف ان نتائج پر ردعمل دیتے ہوئے لیبر پارٹی کے رہنما سر کیئر سٹارمر نے کہا ہے کہ کنزرویٹو ارکان میں واضح تقسیم پائی جاتی ہے اور مسائل کے حل کے لیے ان کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
Advertisement
بورس جانسن نے کنزرویٹو پارٹی میں مجموعی طور پر 58.8 فیصد حمایت حاصل کی ہے جبکہ 41.2 فیصد ارکان نے ان کی مخالفت کی ہے۔ اس کارروائی میں تمام ٹوری ارکان نے حصہ لیا۔ 2018ء میں ایسی ہی ایک اعتماد کے ووٹ کی کارروائی میں ٹریزا مے نے جماعت کی 63 فیصد حمایت حاصل کی تھی۔
وزیراعظم بورس جانسن کی حکومت کو اس وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب کورونا کی وبا اور لاک ڈاؤن کے دوران 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ میں قوائد و ضوابط کی خلاف ورزیوں سے متعلق سیو گرے رپورٹ سامنے آئی اور بعض ارکان نے اس پر غصے کا اظہار کیا۔ بورس جانسن نے شراب نوشی سے بھرپور ان پارٹیوں پر معافی بھی مانگی تھی۔
دوسری جانب بورس جانسن کی مخالفت کرنے والے ارکان کا خیال ہے کہ وہ یہ جنگ ہار چکے ہیں کیونکہ انہیں تبدیل کرنے کی کوششیں اب جاری رہیں گی۔