امیر مینائی شائد ہماری 75سال سے روبعمل اسی نیم سیاسی و نیم فوجی صورتحال کے لئے کہہ گئے تھے کہ:
اچھے عیسیٰ ہو مریضوں کا خیال اچھا ہے،
ہم مرے جاتے ہیں تم کہتے ہو حال اچھا ہے!
تجھ سے مانگوں میں تجھی کو کہ سبھی کچھ مل جائے،
سو سوالوں سے یہی ایک سوال اچھا ہے۔
دیکھ لے بلبل و پروانہ کی بیتابی کو،
ہجر اچھا نہ حسینوں کا وصال اچھا ہے۔
آ گیا اس کا تصور تو پکارا یہ شوق،
دل میں جم جائے الٰہی یہ خیال اچھا ہے۔
آنکھیں دکھلاتے ہو جوبن تو دکھاؤ صاحب،
وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے۔
برق اگر گرمئ رفتار میں اچھی ہے امیرؔ،
گرمی حسن میں وہ برق جمال اچھا ہے۔
مکرمی وزیراعظم انورالحق کاکڑ صاحب کا جب سے وزارت عظمی کا قرعہ نکلا ہے سچی بات ہے کہ دل اس ایک مصرعہ پر آ کر ٹھہر گیا ہے کہ "وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے۔” ہماری قومی پٹاری میں بڑے بڑے دانے ہیں، جن کو ابھی ہوا تک نہیں لگوائ گئی۔ جب موصوف نگران وزیراعظم کابینہ بنائیں گے تو عوام کو مزید سرپرائزز ملیں گے۔ ہماری عوام کو حیرت زدہ ہونے کا چسکا ہے، اسٹیبلشمنٹ سیاست کے اس فن میں طاق یے۔ اگر فوج چاہے تو معیشت یا کوئی بھی جواز پیش کر کے ہمارے نگران وزیراعظم صاحب کو ایک "مجلس شوریٰ” بھی بنا کر تھما سکتی ہے، گیارہ سال نہ سہی مگر پھر بھی بقول میر تقی میر، "ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا!”
انوارالحق کاکڑ صاحب کا نام پڑھ اور سن کر سابق آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ صاحب یاد آتے ہیں۔ ویسے یہ نام کی مناسبت اتفاقیہ ہے۔ جنرل عبدالوحید کاکڑ کا تعلق صوبہ سرحد (کے پی کے) سے تھا اور انوارالحق کاکڑ صاحب کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ سابق وزیراعظم ظفر اللہ جمالی کے بعد انوارالحق کاکڑ صاحب بلوچستان سے دوسرے وزیراعظم آئے ہیں۔ البتہ یہ ایک حسن اتفاق ہے کہ انوارالحق کاکڑ صاحب جس طرح پیپلزپارٹی اور نہ لیگ کے اپنے 5سینئر حریفوں کو شکست دے کر چھپ رستم کی طرح وزیراعظم بنے ہیں جنرل عبدالوحید کاکڑ بھی اسی طرح کے چھپ رستم نکلے تھے کہ
1993 میں جنرل آصف نواز جنجوعہ کی وفات کے وقت سنیارٹی لسٹ میں علی الترتیب لیفٹیننٹ جنرل رحم دل بھٹی، محمد اشرف، فرخ خان اور عارف بنگش شامل تھے، تاہم نواز شریف حکومت نے 5ویں نمبر پر موجود جنرل عبدالوحید کاکڑ کو سپہ سالار منتخب کیا۔ جس طرح شاید جنرل عبدالوحید کاکڑ کے اپنے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ آرمی چیف مقرر کئے جائیں گے، اسی طرح انوارالحق کاکڑ نے خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا کہ قائد حزب اختلاف راجہ ریاض اور وزیراعظم شہباز شریف صاحب ان کے نام پر وزارت عظمی کی مہر لگا دیں گے، اور صدرِ مملکت بھی انوار الحق کاکڑ کی بطور نگران وزیرِ اعظم تقرری کی سمری پر فوری دستخط کر دیں گے!۔
نگراں وزیراعظم انورالحق کاکڑ صاحب جس حیرت انگیز انداز میں وزیراعظم بنے ہیں انگریزی زبان میں اسے "بولٹ فرام دی بلیو” کہتے ہیں جس سے ایک اندازہ یہ لگایا جا رہا ہے کہ اب وقت پر انتخابات کا ہونا عین ممکن دکھائی دیتا ہو۔ نگران وزیراعظم جہاں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے فورم پر سینیٹر ہیں وہاں وہ "بلوچستان عوامی پارٹی” (باپ) پارٹی کے سربراہ اور بلوچستان کے وزیر اعلی کے مشیر بھی ہیں اور اب وہ وزیراعظم بھی بن گئے ہیں جن کے بارے ایک خیال یہ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے "بندے” ہیں اور انہوں نے یہ سیاسی پارٹی بھی ان کے اشارے پر بنائی تھی۔ اگر ایسا ہے تو ایک رائے یہ یے کہ نگران اسٹیبلشمنٹ خود ہے تو نگران وزیراعظم لانے یا انتخابات کا ڈول ڈالنے کی پھر کیا ضرورت ہے؟ ہم معاشی طور پر دن بدن برباد ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ انڈیا نے 14ارب ڈالر کا جتنا بجٹ لگا کر مریخ پر مشن بھیجا تھا ہمارے قومی خزانے میں اس سے آدھی بھی "فارن ایکسچینج” نہیں ہے، جو ایک شرمناک بات ہے۔ پچھلے 35سالوں کی طرح ہر حکومت کی ٹانگیں ہی کھینچنی ہیں تو پہلے بھی نگرانی اسٹیبلشمنٹ کر رہی ہے تو الیکشن پر ضرور سرمایہ لٹانا ہے وہی سرمایہ معیشت کی بحالی پر خرچ کیا جائے، بیوروکریسی کی عیاشیاں ختم کی جائیں اور ایسی دیرپا معاشی پالیسیوں پر عمل درآمد کیا جائے کہ ملک کی معیشت کا پہیہ چلنے لگے۔
دنیا ہمارا مذاق اڑا رہی ہے کہ انڈیا مریخ پر خلائی تحقیق کرنے نہیں گیا بلکہ وہاں سے وہ یہ دیکھنے گیا ہے کہ پاکستانی فوج کھیتوں میں ہل کیسے چلا رہی ہے؟
نگران وزیراعظم جو بلوچ پختون ہیں 1971 میں بلوچستان کوئٹہ میں پیدا ہوئے، کیڈٹ کالج کوہاٹ میں ضرور پڑھتے رہے مگر ان کے پاس پولیٹیکل سائنس میں بلوچستان یونیورسٹی سے حاصل کی گئی "بیچلر آف آرٹس” کی ڈگری ہے۔
انوارالحق کاکڑ صاحب کے وزیراعظم بنتے ہی سوشل میڈیا پر موصوف کے خلاف نیب کی ایک انکوائری کا ایک ڈاکومنٹ بھی وائرل ہوا ہے۔ ہم دیگر محب وطن عوام کی طرح فوج کے ساتھ کھڑے ہیں مگر اسٹیبلشمنٹ کو بھی چایئے کہ انہیں گیٹ نمبر چار سے گزارنے سے پہلے وہ تصدیق کر لے کہ انتخابات کا اونٹ جس کروٹ بھی بیٹھے اور جب بھی بیٹھے کم از کم فوج کی شروع کی گئی معاشی پالیسیوں کو جاری رہنا چایئے۔ اس باندھے کے اچھے مال نے گزشتہ 35سال میں جو ڈلیور کیا ہے سب کے سامنے ہے۔ اب ملک کی خوشحالی اور معاشی ترقی کا پہیہ چلنا چایئے۔ بہت ہو گیا۔ "اناف از اناف”انتخابات آگے جائیں یا وقت پر ہوں، اب ایسی دیرپا معاشی پالیسیوں کو رائج کرنا ضروری ہو گیا ہے کہ بیوروکریسی کی عیاشیوں کو روکنا ہو گا ورنہ ملک خونی انقلاب کی طرف بڑھنے لگے گا۔(اختتام)۔