غربت اور غلامی، خاتمہ کیسے ہو؟

33
،غربت اور غلامی،خاتمہ کیسے ہو؟
تحریر: ایم یوسف بھٹی
ملتان یونیورسٹی سے بی اے میں گولڈ میڈل حاصل کیا، پولیٹیکل اکنامکس میں نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوایجز سے پولیٹیکل اکانومی میں ماسٹر اور ایم بی اے کیا، 2014 میں دبئی کی ایک ملٹی نیشنل فنانس ٹریڈنگ کمپنی میں منیجر ٹریڈ کی جاب شروع کی۔ اسی دوران "غربت اور غلامی، خاتمہ کیسے ہو” کے عنوان سے کتاب لکھی۔ یہ کتاب 2017 میں شائع ہوئی جو پاکستان کی پانچ مختلف یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل کی جا چکی ہے۔ وہ پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف مارکیٹ اکانومی کے ریسرچ سکالر رہے، پاکستان اور انٹرنیشنل اخبارات اور رسائل میں انکے ریسرچ پیپرز شائع ہوئے۔ 2019ء میں وہ دبئی سے انگلینڈ چلے گئے جہاں انہوں نے یونیورسٹی آف ایسکس  میں اکنامکس میں پی ایچ ڈی  کا مقالہ جمع کروا رکھا ہے۔ امید ہے 2024ء میں انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی مل جائے گی۔ آجکل وہ اسی یونیورسٹی میں لیکچر دیتے ہیں اور انگلینڈ کے تھنک ٹینکس بھی ان کی خدمات حاصل کر رہے ہیں جس سے انہیں ماہانہ کم و بیش 5ہزار پونڈ انکم حاصل ہوتی ہے جو لگ بھگ 18لاکھ 30ہرار پاکستانی روپے بنتے ہیں!۔
یہ ذیشان ہاشم ہیں جن کا تعلق ذہانت کی زرخیز زمین ملتان سے ہے، وہ اپنے دبئی کے قیام کے دوران میرے اچھے دوست تھے مگر ان کے برطانیہ جانے کے بعد ان سے میرا رابطہ کٹ گیا۔ آج اتفاقا ایک جگہ ان کے ایک رشتہ دار خواجہ محمد رضوان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ان سے وٹس ایپ پر میرا رابطہ کروا دیا جس سے ان کے بارے میں مزید جاننے کا موقع ملا۔ ذیشان ہاشم 40 سال سے کم عمر ہیں ابھی انہوں نے شادی نہیں کی اور وہ ایک منصوبے پر کام کر رہے ہیں جس کا مقصد پاکستان سے غربت (حقیقی) اور غلامی (نظریاتی) کا خاتمہ کرنا ہے۔ میں پاکستان سے "ذہانت کے اخراج”  کے بارے میں اکثر فکرمند رہتا ہوں۔ ہر سال دنیا کے 150 مختلف ممالک میں کام کرنے والے 11 ملئین سے زیادہ سمندر پار پاکستانی جس میں ذیشان ہاشم جیسے جینیس افراد بھی شامل ہیں تقریبا 30بلئین ڈالر کا زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں، لیکن اس کے بدلے میں سمندر پار پاکستانیوں کو حکومت پاکستان جو سہولیات دیتی ہے وہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جس کے لئے بیرونِ ملک مقیم محنتی اور زہین شہری ایک اثاثے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کی شکایات میں ہر سال اضافہ ہوتا ہے جس کو پنجاب میں بیرونِ ممالک مقیم پاکستانیوں کی شکایات کے ازالے کے لیے کام کرنے والا ادارہ ’پنجاب اوورسیز پاکستانیز کمیشن‘ بھی تسلیم کرتا ہے۔ اس کمیشن کو سالانہ 6000 سے زائد درخواستیں موصول ہوتی ہیں جن میں سے زیادہ تر درخواستیں (تقریبا 99%) جائیدادوں پر قبضے کے بارے میں ہوتی ہیں۔ پاکستان میں لینڈ مافیا بہت فعال اور طاقتور ہے جس کے سامنے حکومتیں بھی بے بس نظر آتی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق 2014 سے جون 2021 تک 7برس کے دوران 23ہزار 800شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 14ہزار 755شکایات کا ازالہ کیا گیا۔ جب کہ لگ بھگ 9000شکایات ابھی بھی کمیشن کے پاس موجود ہیں جو بوجوہ زیرِ التوا ہیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کی زمینوں اور گھروں پر قبضے کے لیے جعل سازی سے نقلی کاغذات تیار کیے جاتے ہیں اور زمینوں کو فروخت کر دیا جاتا ہے۔ جب کہ اوورسیز پاکستانی ملک سے باہر اس ساری صورتِ حال سے لاعلم ہوتے ہیں۔ دوسری جانب کوئی عام شہری نقلی کاغذات پر جائیداد خرید لیتا ہے اور پھر دونوں ایسے افراد آپس میں قانونی معاملات میں الجھ جاتے ہیں جنہیں قبضہ گروہ نے دھوکا دیا ہوتا ہے۔
پاکستان سے سمندر پار جانے والے لوگوں کی دو قسمیں ہیں۔ ایک غربت اور روزگار کی تلاش میں باہر جاتے ہیں اور دوسرے ذیشان ہاشم جیسے وہ طالب علم باہر جاتے ہیں جو بیرون ملک میں اعلی تعلیم کے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں یا جنہیں امیر اور ترقی یافتہ ممالک مثلا امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، آسٹریلیا اور سوئٹزرلینڈ وغیرہ مفت تعلیمی وظائف دیتے ہیں۔ ان مغربی ممالک میں سٹوڈنٹ ویزے پر عموما وہ طالب علم جاتے ہیں جو اعلی درجے کے ذہین و فطین ہوتے ہیں اور جو ہماری عقل و دانش کے حوالے سے ہمارے لئے کریم کا درجہ رکھتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ 90 فیصد سے زیادہ طلباء اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن واپس نہیں لوٹتے ہیں اور ان کی ذہانت سے وہی ملک فائدہ اٹھاتے ہیں جہاں وہ تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں۔ اگر پاکستان ان کی ذہانت کا صحیح معاوضہ اور مراعات دے تو اس سے پاکستان کو کماحقہ طور پر دگنا فائدہ ہو گا۔
یہ ایک تجویز ہے کہ اوور سیز پاکستانیز اور خصوصی طور پر ان جیسے جینئس، ایماندار اور اہل طلباء کو اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں پر نمائندگی دی جائے۔انسان کی اصل طاقت اسکے عقائد اور نظریات نہیں ہیں بلکہ اس کے سوچنے کی لامحدود صلاحیت ہے۔ ہمارے ہاں پائ جانے والی فکر اور سوچ کے جمود کو جھنجھوڑنے کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ کسی بھی قوم اور ملک کی ترقی کا انحصار قابل اور ذہین لوگوں کی بنائی گئی "لانگ ٹرم” پالیسیوں پر عمل درآمد سے ممکن ہوتا ہے۔ ایک تو اس سے جہاں ملک سے ذہانت کے اخراج کو روکا جا سکے گا وہاں اس نمائندگی سے ان سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل کا ازالہ براہ راست ممکن بنایا جا سکے گا۔ غربت اور غلامی کا خاتمہ اکانومی کی لانگ ٹرم پالیسیوں پر عمل درآمد سے ہی ہو گا۔ ذیشان ہاشم جیسے دانشوروں سے یورپ فائدہ اٹھا سکتا ہے تو انہیں پاکستان واپس لا کر ہم کیوں نہیں اٹھا سکتے؟
جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

@media print { body { color: inherit; /* Ensures that the color is maintained */ } }