ہر وقت خوراک و پانی کی دستیابی میرا مشن ہے (مریم المہیری)۔
۔2051تک ملک کو خوراکی سکیورٹی میں دنیا کے دس بڑے ممالک میں شامل کرنا ہے(مریم المہیری)۔
ابوظہبی(اردوویکلی)::وزیر مملکت برائے فوڈ اینڈ واٹر سکیورٹی مریم المھیری نے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات اگرچہ دنیا میں کھجور برآمد کرنے والے بڑے ممالک میں شامل ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ اپنی خوراکی ضروریات کی 90 فیصد اشیاء درآمد کرتا ہے اور یہ عمل پیراڈائم شفٹ کے تحت جاری ہے ۔ زراعت ، آبی کلچر اور ان دونوں شعبوں میں جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال ملک کی فوڈ سکیورٹی کو مربوط بنانے کیلئے بہت ضروری ہیں ۔ان خیالات کااظہاروزیر مملکت برائے فوڈ اینڈ واٹر سکیورٹی مریم المھیری نے امارات نیوز ایجنسی وام کے نمائیندے عبداللہ عبدالکریم کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ متحدہ عرب امارات میں کوویڈ 19 کے ابتدائی ایام سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ مہینے ہم سب کیلئے واقعی سبق آموز تھے ۔ انہوں نے کہا کہ اس عرصہ میں فوڈاسٹاک کی موجودگی کویقینی بنانے پر ہم تمام متعلقہ فریقین اور یقینا” ملکی قیادت کے شکر گزار ہیں ۔ ان حالات نے ثابت کیا کہ ملک کا خوراکی نظام بہت ہی موثر ہے حالانکہ 90 فیصد خوراک درآمد کی جاتی ہے – انہوں نے کہا کہ حالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ہم مستقبل میں بھی کسی قسم کے بحران سے نمٹنے کیلئے تیار رہیں ، ملک کے ہر شہری اور ہر مقیم فرد کو خوراک اور پینے کا پانی ہر وقت اور مناسب دام پر میسر ہوں ۔ یہ بات جب ہر وقت کیلئے کی جاتی ہے تو اسکا مطلب ہے کہ اس کی دستیابی ہنگامی حالات میں بھی ہو۔ انہوں نے ملک کی زرعی اور خوراکی صلاحیت کو بڑھانے کا عزم کرتے ہوئے کہا کہ 90 فیصد خوراکی برآمدات سے واقعی ملک کی فوڈ سکیورٹی کو سنجیدہ چیلنج درپیش ہوتا ہے ۔مریم المہیری نے کہا کہ خوراک پیداوار والے شعبے کی ترقی اور بالخصوص ایکواکلچر کو فروغ دینا ضروری ہے ، اس میں ٹیکنالوجی کے جدید ترین استعمال پر بھی توجہ دی جارہی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ عموما ورٹیکل فارمنگ ، روایتی کاشتکاری سے 90 فیصد کم پانی لیتی ہے تو ایسے ذرائع کا فروغ معاشی اور ماحولیاتی حوالے سے بھی بہت مثبت اثرات کا حامل ہوتا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ملک میں مقامی خوراکی اشیاء کو زیادہ اگا کر بعض غذائی اشیاء میں خود انحصاری حاصل کی جاسکتی ہے ، اس امر کو بھی یقینی بنایا جارہا ہے کہ قدرتی وسائل کی پائیداری کو یقینی بنایا جائے جوہماری آنے والی نسلوں کیلئے بھی فائدہ مند ہو۔ انہوں نے بتایا کہ جب وہ 2017 میں وزیر بنیں تو نائب صدر و وزیراعظم اور دبئی کے حکمران عزت مآب شیخ محمد بن راشد المکتوم نے انہیں کہا تھا کہ تحقیق و ترقی میں پیشرفت کیلئے ٹیکنالوجی کو اپنانے کا منصوبہ بنایا جائے ، یہی وجہ ہے کہ ماضی قریب کی کاوشیں حقیقی معنوں میں ہمارے خوراکی نظام پر مثبت اثرات کا حامل رہیں – انہوں نے بتایا کہ اب ہمارا ہدف 2051 تک ملک کو گلوبل فوڈ سکیورٹی انڈیکس میں بلند درجہ تک پہنچانا ہے اور ایک ایسا پائیدار خوراکی نظام قائم کرنا ہے جو کہ فعال و موثراور با عمل ہو تاکہ مستقبل میں کسی بھی بحران سے نمٹا جاسکے ۔ ہمارے ملک کیلئے بھی ضروری ہے کہ ہم فوڈ اور سکیورٹی پر متوجہ رہیں ، عالمی ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے ساتھ بڑھتی آبادی کے تناظر میں خوراک کی طلب پورا کرنا بھی بہت اہم ہے ۔ ایکوا کلچر سے متعلق المھیری کا کہنا تھا کہ اس کا مرکزی عنصر ملک کی فوڈ سکیورٹی سٹریٹجی ہے ۔ ایکوا کلچر خصوصی طور پر کم زمین والے مقامات کیلئے ہوتا ہے اور روایتی کاشتکاری کے مقابلے میں اسے کم رقبہ درکار ہوتا ہے ، تالاب اور ٹینکس میں مچھلیوں کی افزائش اس مقدار میں اس سے بہت کم جگہ پر کی جاسکتی ہے جہاں مویشی پال کر پروٹین کی ضروریات پورا کی جانی ہوں ۔ وزیر کا کہنا تھا کہ 2051 تک ملک کو خوراکی سکیورٹی میں دنیا کے دس بڑے ممالک میں شامل کرنا ہے ۔اس کے لیئے سرمایہ کاری کو بھرپور راغب کرنے کی خاطر واضح حکومتی اقدامات بھی کیئے جائیں گے – متحدہ عرب امارات کی ایکواکلچر پلس رپورٹ 2020 کے مطابق ملک کی 18 سٹریٹجک فوڈ آئٹمز میں مچھلی بھی شامل ہے – المھیری کا کہنا تھا کہ قومی خوراکی سکیورٹی حکمت عملی نومبر 2018 میں جاری کی گئی تھی ، تب عالمی فوڈ سکیورٹی کے انڈکس میں عرب امارات کا درجہ 31واں تھا ، دسمبر 2019 میں ہونے والی اس عالمی درجہ بندی میں امارات 10 درجے بہتر ہوکر 21ویں پوزیشن پر آگیا تھا اور قومی حکمت عملی نے ایک برس میں ہی ایسے خاطر خواہ نتائج دکھائے تھے