کہانی پاکستان کی پہلی ایف آئی آر کی؟
کہانی پاکستان کی پہلی ایف آئی آر کی؟
تحریر: ایم یوسف بھٹی
سندھ کے مشہور دانشور اور کالم نویس محمد موسیٰ جوکھیو کا انتقال 82 سال کی عمر میں 2021 میں ہوا۔ وہ کئ کتابوں کے مصنف تھے، ان کی سندھی زبان کی ایک کتاب بعنوان، "اهي ڏينهن اهي نينهن”بہت مشہور ہوئی جس کا بعد میں اردو زبان میں بھی ترجمہ ہوا۔ مرحوم کے انتقال سے چند گھنٹے قبل ان کی اس نئی تصنیف کی رسم رونمائی ان کے گھر پر منعقد ہوئی تھی، جس میں مرحوم نے مختصر خطاب بھی کیا تھا۔ اس کتاب میں 18 اگست 1947 میں پاکستان میں کٹنے والی پہلی ایف آئی آر کا ایک بدترین اور نا انصافی پر مبنی سچا واقعہ درج ہے کہ کس طرح حالات و واقعات انسان کی نفسیات کو اپنا دین اور دھرم تبدیل کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
مرحوم محمد موسیٰ جوکھیو لکھتے ہیں کہ ضلع بدین کے ایک شاعر محمد خان ہمدم ایک نیک دل، سچے مذہبی، پنج وقت کے نمازی اور تہجد گزار انسان تھے، وہ سندھ کےمحکمہ ریوینیو کراچی میں تپیدار کی حیثیت سے تعینات تھے۔ 14 اگست 1947ء کو پاکستان آزاد ہوا، 18 اگست 1947ء کو رمضان کے مہینے میں محمد علی جناح، لیاقت علی خان اور ملک کی دیگر اعلیٰ قیادت کو کراچی میں نماز شکرانہ ادا کرنی تھی۔ حکومت سندھ نے محکمہ ریوینیو کو مرکزی عیدگاہ کی صفائی کا حکم دیا تاکہ مناسب طریقے سے نماز شکرانہ کی ادائیگی کی جا سکے۔ محمد خان ہمدم کی سربراہی میں عیدگاہ کی صفائی کا کام شروع ہوا تو محمد خان ہمدم کو یہ خیال چرایا کہ وہ پہلی صف میں محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے ساتھ نماز ادا کرے گا۔ جب نماز کا وقت قریب آیاتو ڈپٹی کمشنر اور مختار کار آخری جائزہ لینے کیلئے مرکزی عیدگاہ پہنچے، سارے سٹاف کو حکم ہوا کہ پہلی اور دوسری صفیں خالی ہونی چاہئیں، پہلی صف میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان اور سردار عبد الرب نشتر نماز ادا کریں گے اور دوسری صف میں پاکستان کے بیوروکریٹس اور دیگر اعلیٰ افسران ہونگے، جبکہ باقی پچھلی صفوں میں خلق خدا نماز پڑھے گی۔ محمد خان ہمدم نے سوچا کہ اسلام میں ایسا کوئی حکم نہیں کہ حکمران اور عوام کاندھے سے کاندھا ملا کر نماز نہیں پڑھ سکتے ہیں:
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز،
.نہ کوئی بندہ رہا، اور نہ کوئی بندہ نواز!
جیسے ہی نماز کا وقت ہونے لگا اور اس نظم کے انچارج صاحب نے اگلی صفوں کا جائزہ لیا تو دیکھا کہ پہلی صف میں محمد خان ہمدم تنہا کھڑا ہے جبکہ دوسری صف خالی ہے، انچارج نے محمد خان سے کہا کہ یہاں سے نکلو اور پیچھے جا کر کسی بھی صف میں کھڑے ہو جاؤ، یہاں جناح والی قیادت نماز پڑھے گی، اس نے کہا کہ اسلام میں یہ فرق نہیں ہے میں جناح کے ساتھ پہلی صف میں نماز پڑھوں گا، کچھ ہی دیر میں اے سی صاحب آئے اور انچارج کو حکم دیا کہ پہلی صف میں جو شخص کھڑا ہے اسے وہاں سے فورآ ہٹایا جائے، مگر خان صاحب پر ایک ہی بھوت سوار تھا کہ دین اسلام میں ایسا کوئی حکم نہیں ہے، میں سب سے پہلے پہنچا ہوں اس لئے پہلی صف میں قائد کے ساتھ نماز ادا کروں گا، یہاں سے مجھے کوئی بھی نہیں ہٹا سکتا، اسی دوران کمشنر صاحب بھی آ گئے انہیں بھی اس صورتحال سے آگاہ کیا گیا کہ یہ صاحب اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں کہ جناح صاحب کے ساتھ نماز پڑھوں گا۔کمشنر صاحب نے سیکورٹی کے عملے کو حکم دیا کہ اس کا دماغ خراب ہے اس کی دھلائی کر کے ایسی جگہ پر پھینک آؤ کہ آج کے دن یہ دوبارہ یہاں نظر نہ آئے، حکم کی تعمیل ہوئی، سیکورٹی والے کتوں کی طرح اس پر چڑھ دوڑے، اسے لہو لہان کیا، پھر کتے پکڑنے والی گاڑی میں ڈال کر اسے منگھو پیر والے علاقےمیں ایک ویرانے میں پھینک آئے۔ ہمدم صاحب وہاں بے ہوش پڑے تھے کہ ایک چرواہے کی نظر اس پر پڑی، جو اسے ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مار کر ہوش میں لے کر آیا۔ محمد خان نے چروایے کو کہا مجھ پر ایک مہربانی کرو اسر مجھے کسی طرح میرے گھر کراچی پہنچا دو۔ اس چرواہے نے اسے کسی گاڑی میں ڈال کر اس کے گھر پہنچا دیا۔ اس کی بیوی نے یہ خون والے کپڑے اور جسم پر تشدد دیکھ کر پوچھا کیا ہوا تمہارے ساتھ اور یہ کس نے کیا؟ اس پر محمد خان ہمدم نے اپنی بیوی سے کہا، "مجھے پہلی صف میں قائد اعظم کے ساتھ پاکستان کی آزادی کی نماز شکرانہ پڑھنے کی سزا ملی ہے!” اسی رات محمد خان ہمدم کے گھر پر پولیس نے چھاپہ مارا اور اسے جناح اور لیاقت علی خان پر قاتلانہ حملے کی پاکستان کی پہلی ایف آئی آر کاٹ دی اور اس پر ملک دشمن اور جاسوسی کی دفعات بھی لگا دیں!!!
یہ خبر میڈیا میں آئی اور خان ہمدم کو سینٹرل جیل بھیج دیا گیا، چار سال تک کیس چلا اور اسے پھانسی کی سزا سنا دی گئ۔ اس کے دوستوں نے سزا کے خلاف اپیل داخل کی مگر اسی دوران پاکستان کے اندر ملک کی سلامتی کے خلاف ایک مقدمہ دائر ہوا جس میں ملک کے نامور شاعر فیض احمد فیض کو گرفتار کر کے کراچی جیل میں لایا گیا، محمد خان کو جب معلوم ہوا کہ فیض احمد فیض بھی جیل میں ہیں تو کسی طریقے سے اس سے رابطہ کیا، ملاقات کی اور اسے اپنا تعارف کروایا اور سارا قصہ کہہ سنایا، فیض صاحب نے اسے تسلی دی کہ گھبراؤ نہیں سب ٹھیک ہو جائے گا، فیض احمد فیض نے محمد خان ہمدم سے کہا یار مجھے سندھی نہیں آتی، مجھے سندھی سکھاؤ، محمد خان فیض کو سندھی پڑھاتا رہا۔ اس دوران فیض صاحب نے محمد خان کو ایک قابل وکیل مقرر کر کے دیا جس نے محمد خان ہمدم کو سارے الزامات سے بری کروا دیا، ساتھ میں نوکری بھی بحال ہوئی اور بقایاجات کی ادائیگی بھی ہو گئ۔اس پر ہمدم صاحب نے فیض احمد فیض صاحب کا شکریہ ادا کیا اور جیل سے رہا ہو کر گھر پہنچتے ہی اپنی الماری سے قرآن پاک اور جائے نماز اٹھا کر کسی بچے کو دی اور کہا جا کر اسے مسجد میں رکھ دو۔ اس تجربے کے بعد ہمدم نے پہلی صف میں نماز پڑھنے کیلئے ہمیشہ کیلئے توبہ کر لی۔ تب تک محمد خان ہمدم ایک بہت بڑا کمیونسٹ بن چکا تھا۔ وہ نوکری سے ایمانداری کے ساتھ ریٹائر ہوا اور اس نے مڑ کر اسلام کی طرف پھر کبھی نہیں دیکھا