نگراں وزیر اعظم کی حلف برداری اور عام انتخابات

26

نگراں وزیر اعظم کی حلف برداری  اور عام انتخابات

(تحریر:ڈاکٹرجمیل احمدخان(معروف کالم نگاروسینئیرتجزیہ نگار،ماہربین الاقوامی امورسابق سفیر
پاکستان  میں گزشتہ کچھ دہائیوں سے عام انتخابات کی ذمہ داری عموماً نگراں حکومت کے کاندھوں پر ڈالی جاتی رہی ہے اور انوار الحق کاکڑ کی بطور 8ویں نگراں وزیرا عظم تعیناتی بھی اسی تاریخ کا تسلسل کہی جاسکتی ہے۔
اسی تناظر میں نگراں وزیر اعظم سے عام انتخابات کے انعقاد کی توقع کی جارہی ہے جبکہ آئینِ پاکستان کے مطابق انتخابات کا انعقاد موجودہ صورت میں جب اسمبلی اپنی مدت مکمل ہونے سے چند روز قبل تحلیل کردی جائے ،90 روز کے اندر اندر ہوجانا چاہئے  اور یہ سیاسی مقام اس وقت آیا ہے جب  ہم نے 14  اگست کو اپنا 76واں یومِ آزادی منایا
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی تعیناتی کا حقیقی مقصد بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ بلوچستان جیسا چھوٹا صوبہ جسے دشمن نے اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہوا ہے، حتیٰ کہ  بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کے بجٹ کا اچھا خاصا حصہ بلوچستان کے معصوم لوگوں کو ورغلا کردہشت گردی پر مائل کرنے کیلئے مختص ہے ، نتیجتاً بلوچستان کے  جو لوگ ریاست کے ساتھ جنگ لڑتے لڑتے پہاڑوں میں چلے گئے، انہیں اب وہ منطق دستیاب نہیں ہوگی کہ بلوچستان کو اہمیت نہیں دی جاتی اور اسے قومی دھارے سے الگ رکھا جاتا ہے، جس میں یقیناً کوئی حقیقت نہیں ہے۔
راقم الحروف کی نظر میں پی ڈی ایم کی اہم جماعتوں سمیت پی ٹی آئی اور دیگر مخالفین نے بھی انوار الحق کاکڑ کے نام پر  نکتہ چینی سے اجتناب کیا ہے ، ماسوائے اے این پی سربراہ اختر مینگل اور ایمل ولی خان کے، تاہم انوار الحق کا دورِ اقتدار مختصر ہوگا جس میں ان کے اختیارات بھی یقینا ایک عام وزیر اعظم کے مقابلے میں محدود ہوں گے، تاہم عام انتخابات کا انعقاد وہ بھاری بھرکم ذمہ داری ہے جس کی انجام دہی میں کسی بھی قسم کی اونچ نیچ ملکی سیاست کا رخ موڑ سکتی ہے، اس لیے بطور نگراں وزیر اعظم انورا الحق کاکڑ سے ملک کے سیاستدانوں اور عوام نے بے حد امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔
جس طریقے سے اپنی مدت سے قبل پی ڈی ایم حکومت رخصت ہوئی ہے اور جس قسم کے تجزئیے اور تبصرے سننے میں آرہے ہیں، ان سے پتہ چلتا ہے کہ آئندہ 3 ماہ میں انتخابات ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ انتخابات آئندہ برس فروری میں ہوں گے تاہم راقم الحروف کی رائے میں بات اس سے بہت آگے بھی جاسکتی ہے جس کا انحصار پاکستان کے معروضی حالات، ہمارے معاشی مسائل اور سیاسی افہام و تفہیم پر بھی ہے۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) نے آئندہ عام انتخابات کیلئے نواز شریف کو باضابطہ طور پر وزیر اعظم کیلئے اپنا امیدوار نامزد کردیا ہے، پی ٹی آئی کی جانب سے عمران خان کو نامزد کیے جانے کے امکانات فی الحال معدوم ہیں کیونکہ کمان شاہ محمود قریشی کے ہاتھ میں جاچکی ہے اور چیئرمین پی ٹی آئی 5 سال کیلئے نااہل کیے جانےکے ساتھ ساتھ   فی الحال قیدبھگت رہے ہیں جس کے دوران ان کی جانب سے کسی تڑپتے پھڑکتے بیان کی فی الحال کوئی بازگشت سنائی نہیں دے  سکتی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 16 ماہ پر محیط شہباز شریف حکومت نے نیب آرڈیننس کا سہارا لیتے ہوئے اپنے اثر رسوخ کی بنیاد پر درجنوں سیاسی قائدین اور وزرا کے کیسز سے جان چھڑا لی جن میں سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے بیٹے، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کے کیسز بھی شامل ہیں اور ان کیسز میں کہیں تو پراسیکیوشن کمزور کی گئی اور کہیں گواہوں کو گواہی سے پھیر دیا گیا ہے تاہم نئی آنے والی حکومت اور کابینہ میں کیسز مزید بند ہونے کی بجائے کھلتے نظر آرہے ہیں۔
اس اعتبار سے بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہےکہ پہلے عمران خان نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی اپوزیشن کو بحیثیت وزیرا عظم مختلف جھوٹے سچے کیسز میں جیل کی ہوا کھانے پر مجبور کیا اور بعد ازاں ن لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کے اتحاد یعنی پی ڈی ایم نے چن چن کر اپنے حریف لیڈران کو جیلوں میں روانہ کیا اور ان کے خلاف ملک گیر کریک ڈاؤن بھی ہوا۔ یہ الگ بات کہ ان کیسز میں وزن کتنا کم اور کتنا زیادہ تھا، تاہم بظاہر یہ سب کچھ مکافاتِ عمل ہی دکھائی دیتا ہے۔
تاہم جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا کہ کیسز بند نہیں ہوں گے، بلکہ مزید کھلیں گے تومکافاتِ عمل کا پہیہ ایک بار پھر اپنا رخ تبدیل کرتا نظر آئے گا۔ نواز شریف بےشک وزیر اعظم کے عہدے کیلئے امیدوار بن چکے، تاہم مہنگائی، بے روزگاری اور شدید معاشی بحران کے تمام تر الزامات شہباز شریف حکومت پر عائد کیے جائیں گے اور یہ تمام تر نزلہ ن لیگ کی عوام سے ووٹ حاصل کرکے بھاری اکثریت سے کامیابی کو مخدوش بناتا نظر آئے گا۔
اس موقعے پر نواز شریف کی جیت کیلئے ن لیگ جو بیانیہ اختیار کرسکتی ہے وہ یہ ہوسکتا ہے کہ چھوٹے بھائی (شہباز شریف) سے تو غلطی ہوگئی اور انہوں نے تو وزیر اعلیٰ کے طور پر عوام کی خدمت بھی کی تھی جسے ایک دنیا مانتی ہے، لیکن وزیر اعظم بننے کا تجربہ کامیاب ثابت نہ ہوسکا، تاہم نواز شریف ایک اہل آدمی ہیں اور 3 بار ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں، اس لیے عوام کو ضرور ان کو ایک بار پھر وزیر اعظم بنانے کیلئے سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔دیکھا جائے تو ن لیگ کا ووٹ بینک بھی اپنی جگہ قائم ہے۔ پی ٹی آئی نے بہت حد تک ان کے ووٹ بینک پر قبضہ کرنے میں کامیابی حاصل کر لی تھی، تاہم اب تحریکِ انصاف پر کریک ڈاؤن اور درجنوں رہنماؤں کا پارٹی چھوڑ کر جانا اور پھر خود پارٹی میں توڑ پھوڑ اور استحکامِ پاکستان پارٹی اور پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کی تشکیل سے بھی یہ معاملہ بہت حد تک رفع دفع ہوچکا ہے اور ن لیگ ایک بار پھر عوام کی حمایت حاصل کرنے کی پوزیشن میں نظر آتی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ عوا م الناس عام انتخابات میں حصہ لیں ، ووٹ دینے کیلئے انتخابات والے روز گھرسے ضرور نکلیں اور اس پارٹی کو چنیں جو مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی بدحالی جیسے مصائب کا حل نکالنے کیلئے کوئی واضح لائحۂ عمل پیش کرے اور ایک ایسا لیڈر منظرِ عام پر لائے  جسے نہ صرف پاکستانی عوام میں پذیرائی حاصل ہو  بلکہ اقوامِ عالم بھی اس کی عزت کریں۔
جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

@media print { body { color: inherit; /* Ensures that the color is maintained */ } }