کیا پاکستان کی کہانی بدل رہی ہے؟ نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی آمد سے پہلے آرمی چیف کے سخت اقدامات سے کرنسی کی سمگلنگ کرنے والے 350 سے زیادہ مجرم گرفتار کیئے گئے اور ڈالر 332 سے 305 پر آ گیا۔ یہ یاد رہے کہ ملک کے اندر معاشی بحران کرپشن، جرائم یا مہنگائی سے نہیں بلکہ ملک کا پیسہ باہر لے جانے سے پیدا ہوتا ہے۔ پنجاب سے بجلی اور گیس چوری کرنے والے بڑے سرمایہ داروں پر بھی ہاتھ ڈالا گیا۔ یہ بھی پتہ چلا کہ پیپلز پارٹی کے ایک صوبائی وزیر کے حیدر آباد کے قریب مٹیاری والے گھر پر نیب کے چھاپے سے اربوں غیر ملکی کرنسی برآمد کی گئ۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے جاتے جاتے نیب ترامیم بھی کالعدم قرار دے دی ہیں جس کے بعد نیب کے آفیشلز نے یہ انکشاف کیا ہے کہ اگلے چند روز میں سپریم کورٹ کے ایک آرڈر کے زریعے سلیمان شہباز، حمزہ شہباز اسحاق ڈار، یوسف رضا گیلانی، آصف زرداری، اے جی مجید انور اور دیگر کے "ہارڈ ارنڈ” اثاثے دوبارہ منجمد کر لیئے جائیں گے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے آتے ہی پہلا قدم یہ اٹھایا کہ عدالت عظمی میں زیر سماعت آنے والے مقدمات کی فہرست (کاز لسٹ) اور فیصلے انگریزی کی بجائے اردو میں جاری ہونگے۔ قاضی فائز عیسی کئی حوالوں سے متنازعہ ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے 18ستمبر کو اپنے پہلے کیس کی سماعت کے حوالے سے جو بڑا قدم اٹھایا ہے اس پر عمل درآمد اردو زبان کو قومی اور دفتری زبان قرار دینے کے بعد 76سالہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔ اس سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ دن دور نہیں جب اردو پاکستان کی تعلیمی، عدالتی اور سرکاری و دفتری زبان ہو گی۔
دنیا میں پاکستانی عدلیہ بدنام ترین عدلیہ ہے۔ رول آف لاء کے اعتبار سے 140ممالک کی فہرست میں پاکستان 129ویں نمبر پر آتا ہے۔ ساوتھ ایشیا میں علاقائی سطح پر پاکستان 6ممالک میں 5ویں نمبر پر ہے۔ شرمناک حد تک خطے کی بہتر عدالتی کارکردگی میں نیپال اور سری لنکا بھی پاکستان سے آگے ہیں۔ نیپال 140ممالک میں سری لنکا اور انڈیا کے بعد 69ویں نمبر پر ہے۔ جبکہ 139ممالک کی رینکنگ میں انڈیا 79ویں نمبر پر اور ہم آج بھی 129ویں نمبر پر کھڑے ہیں۔ پاکستان کی سول کورٹس کے فیصلوں میں اس ناقص ترین کارکردگی کی بنیادی وجہ عدالت عالیہ کا سیاسی فیصلوں میں ملوث ہونا بتایا جاتا ہے۔ جسٹس بندیال نے اپنے ڈیڑھ سالہ دور میں عدلیہ کو جتنا بے توقیر کیا اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔انہوں نے ماسٹر آف روسٹر کی حیثیت سے اپنے اختیارات کا غلط اور ناجائز استعمال کیا اور اہم ترین سیاسی و آئینی مقدمات اپنے "مخصوص” اور "ہم خیال” ججز کے سپرد کیئے جس سے وہ ’’بنچ فکسنگ‘‘ کے مرتکب ہوئے۔آرٹیکل 63A کی تشریح کے لئے صدارتی ریفرنس پر جسٹس بندیال کی سربراہی میں پانچ رُکنی بنچ نے منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہ کرنے کا جو فیصلہ دیا، وہ آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترادف تھا۔ جسٹس بندیال کے انہی متنازعہ فی فیصلوں کی وجہ سے ملک میں بدترین سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا اور سپریم میں یکے بعد دیگرے سیاسی مقدمات کی سماعت سے سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی۔ اگر محترم المقام قاضی فائز عیسی صاحب سیاسی کیسز نہ لیں اور جسٹس ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ کے ڈیم بنانے کے ادھورے خوابوں کو پورا کرنے کی بجائے وہ فقط زیر التوا سول کیسز نمٹائیں اور ان کی تعداد کو انتہائی حد تک کم کریں تو یہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا
یکم جنوری 2023 تک سپریم کورٹ میں 41102مقدمات زیر التوا تھے، 15جنوری تک چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 1362مقدمات نمٹا دیئے گئے، بعد میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 39742 رہ گئی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف اٹھایا تو 38750مقدمات زیر التوا تھے۔ مگر جب وہ رخصت ہوئے تو لگ بھگ 50ہزار مقدمات جمع ہو چکے تھے۔ اب جسٹس عمر عطا بندیال صاحب ریٹائر ہوئے ہیں تو سپریم کورٹ میں اب بھی تقریباً 55ہزار مقدمات زیر التوا ہیں۔ یعنی موصوف کے دورانیہ میں 5000زیر التوا کیسز کا اضافہ ہوا! اگر پاکستان کے عالمی رینکنگ میں گرے ہوئے اس معیار کو بہتر کرنا ہے تو یہ 29ویں نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔
قاضی فائز عیسی کے والد گرامی قاضی محمد عیسی آف پشین تحریک پاکستان کے سرگرم رکن اور قائداعظم کے قریبی ساتھی تھے، وہ بلوچستان کی پہلی شخصیت تھے جنہوں نے بار ایٹ لاء کی ڈگری حاصل کی اور قانون اور اصولوں کی سرپرستی میں نام کمایا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی بھی اصولوں اور انصاف کی پاسداری میں نیک نام رکھتے ہیں۔ ان کے لئے اب سنہری موقع ہے کہ وہ قلندرانہ کردار ادا کریں اور اپنے صواب دیدی (سوموٹو) اختیارات استعمال کرتے ہوئے عدالتوں میں سیاسی مقدمات پر مکمل پابندی عائد کر دیں، جسٹس بندیال نے جتنا بھی انصاف کا قتل کیا مگر انہوں نے ایک آخری کام نیب کی ترمیمات کو کالعدم کرنے کا اچھا فیصلہ کیا جسے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی جاری رکھیں تو اس سے نیب بلا امتیاز احتساب کے عمل کو جاری رکھ سکتی ہے جس کی زد میں وہ کرپٹ مافیا بھی آئے گا جو پیپلزپارٹی، ن لیگ اور پی ٹی آئی کی صفوں میں چھپا ہوا ہے۔ اگر جسٹس قاضی فائز عیسی اس سے بھی آگے بڑھیں تو وہ احتساب کے عمل کو وسیع کرتے ہوئے اسے فوج کے اندر سابقہ اور موجودہ کرپٹ افسروں تک بھی پھیلا سکتے ہیں! یہ ایک دہرا تعاون ہے۔ کیا خبر حافظ صاحب اور قاضی صاحب مل کر پاکستان کی کہانی بدل دیں اور پاکستان کو ہمیشہ کے لئے معاشی بحران سے نکال دیں