اب دبئی میں ہرایک کے لیے گھرخریدنا ممکن(رضوان ساجن)
ڈینیوب پراپرٹیزصارفین کوآسان خریداری تک رسائی فراہم کرتاہے
اب دبئی میں ہرایک کے لیے گھرخریدنا ممکن
صرف 1٪ معمولی رقم اداکرکے دبئی میں ذاتی گھرکے مالک بن جائیں(رضوان ساجن)
ڈینیوب بانٹ رہاہے جدیدلگژری گھر صرف 1٪فی صدادائیگی پر
یعنی چند ہزار درہم کی معمولی پےمنٹ کریں اوربس اپنے ذاتی گھرکے مالک بن جائیں۔
کیوں ہے نہ بڑی عجیب بات
بیز،اوپلز،سٹارز،گلیمز،ویوز،میراکلز،ریزورٹس،جیولز،ایلز،لانز،اولوز،پرلز،جیمز،پیٹلز،سکائیز،ایلیٹز، ایلیٹز1،ایلیٹز2،ایلیٹز3،ایلیگنز،فیشنز،اوشئینز،سپورٹز،اور اب 101بیزٹاورتعمیراتی منصوبے
ڈینیوب پراپرٹیزکی تیزرفتارتعمیروترقی کے مظہر
چندمنزلہ بلڈنگز کے آغازسے آسمان کوچھونے والے 101بیزٹاورتک ڈینیوب کاسفر۔
دبئی(ارشدچوہدری)::کوئی اوررئیل اسٹیٹ یاڈویلپر ڈینیوب جیسی مراعات نہیں دے سکتا،کیونکہ میراخواب ہے یواے ای میں ہرتارک وطن کے پاس گھرہو ان خیالات کااظہاربانی وچئیرمین ڈینیوب رضوان ساجن نے نمائیندہ اردوویکلی چوہدری ارشد سے ایک ملاقات میں کیا۔
انقلابی گیم کو تبدیل کرنے والے 1 فیصد منصوبے کے ساتھ، ڈینیوب گروپ کے چیئرمین اور بانی رضوان ساجن نے نہ صرف خریداری کے عمل کو آسان بنا کر بلکہ شہر میں کرائے سے ملکیت کی طرف منتقلی کو تیز کر کے دبئی کے پراپرٹی سیکٹر کو مکمل طورپر تبدیل کر دیا ہے۔
ڈینیوب گروپ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں مقیم ایک متنوع جماعت ہے جو تعمیرات، رئیل اسٹیٹ، ریٹیل اور مینوفیکچرنگ سمیت مختلف شعبوں میں کام کرتا ہے۔
متحدہ عرب امارات میں ڈینیوب گروپ تعمیراتی مواد کی صنعت کے لیے جانا جاتا ہے، ڈینیوب بلڈنگ میٹریل اس کی اہم کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ اس گروپ نے متحدہ عرب امارات اور مشرق وسطیٰ کے وسیع تر خطے میں تعمیرات اور رئیل اسٹیٹ کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ڈینیوب گروپ کے بانی وچئیرمین رضوان ساجن نے 1993میں ٖڈینیوب گروپ کی بنیاد رکھی اور پھر2014میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں ڈینیوب پراپرٹیزکے نام سے شروعات کی اورصرف 10سال میں رئیل اسٹیٹ شعبہ میں انقلاب برپاکردیا۔چندمنزلہ بلڈنگز سے آغازکرنے والا رضوان ساجن(ڈینیوب پراپرٹیزگروپ)2014کے پہلے مہینے میں 101بیز ٹاورکی تعمیرکااعلان کردیا اورآسمان کوچھونے کی جانب سفرکاآغازکردیا۔اس سارے سفرکی کامیابی کے پیچھے رضوان ساجن،انکے بھائی انیس ساجن ،عادل ساجن اور انکی ٹیم کوجاتاہے جن کے ترقی پسندانہ وژن نے صارفین کوڈینیوب پراپرٹیز کے دلکش آفرزکی جانب متوجہ کیا۔
رضوان ساجن سے جب 1٪پلان کے اعلان بارے سوال کیا تووہ کچھ دیر سوچنے کے بعد کہنے لگے اس کے پیچھے میری زندگی کے ناقابل فراموش لمحات پوشیدہ ہیں ۔جب میں پیداہوا ہمارے پاس ذاتی گھرنہیں تھا میرے والد ایک سرکاری ملازم تھے
میرے والد ایک سٹیل فیکٹری میں بطور سپروائزر کام کرتے تھے جو 7000 روپے ماہانہ کماتے تھے گھرکاخرچہ چلانا بھی بہت مشکل تھا میں نے بڑے کٹھن حالات دیکھے۔
اورہم لوگ کھلے آسمان تلے واقع ایک کچی آبادی میں ایک کمرے کے گھرمیں رہتے تھے۔جہاں انفرادی ٹوائلٹ تک کی سہولت موجود نہیں تھی اور ہماری فیملی ایک مشترکہ ٹوائلٹ استمال کرنے پرمجبورتھے ۔اورپھرجب سرکار کی جانب سے میرے والد کوایک بلڈنگ میں ذاتی فلیٹ ملاجہاں بہترسہولیات میسر تھیں توہم وہاں شفٹ ہوئے اور اللہ کاشکر اداکیا۔رضوان ساجن نے کہا کہ جب میں صرف 16 سال کاتھاتومیرے والد کا انتقال ہوگیا۔ میں تین بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا، اس لیے اپنےخاندان کی مالی ضروریات کی دیکھ بھال میری ذمہ داری تھی ۔میں نے سڑک پراپنے خاندان کے لیے پیسے کمانے کے لیے سٹریٹ وینڈرکے طورپر کتابیں اور اسٹیشنری بھی بیچی بلکہ اضافی آمدنی کے لیئے دودھ بھی لیکرجاتا اور فروخت کرتا۔وقت کاپہیہ چلتارہا 1981میں جب میں صرف 18سال کاتھا تومیرے چچاکے توسط سے مجھے کویت میں 150 دینار کی اجرت پرسیلزٹرینی کی نوکری مل گئی ۔جہاں پرمیں نےآٹھ سال کام کیا اورترقی کرکے سیلز مینیجر بن گیا۔ لیکن پھر 1990میں عراق نے کویت پر حملہ کردیااورحالات خراب ہوگئے اوریوں خلیجی جنگ کے بعد میں واپس ممبئی واپس آ گیا۔اب میری زندگی کاایک نیاباب شروع ہوا اور مجھے دبئی میں دبئی میں نوکری مل گئی اورمیں بروکریج کاکام کرنےلگ گیا جوبلڈنگ میٹیریل کاتھاجب میرے پاس کچھ پیسے بھی جمع ہوگئے تو میں نے ایک دن نوکری چھوڑنے کا فیصلہ کر کے اور اپنی بلڈنگ میٹریل ٹریڈنگ کمپنی قائم کی یوں 1993میں ڈینیوب گروپ کی پیدائش ہوئی۔سخت محنت کی کئی اتارچڑھاؤ آئے مگرکبھی ہمت نہ ہاری۔ ڈینیوب گروپ ،انفراسٹرکچر، رئیل اسٹیٹ ،بلڈنگ کنسڑتکشن وغیرہ میں ایک محکموں کے انتظام کرتاحالات بدلنے لگے2019تک، ڈینیوب گروپ کافی ترقی کرچکاتھا۔ توپھر۔ 2006 میں، ہم نےسینیٹری سلوشنز کا برانڈ میلانو شروع کیا۔ 2008 میں، اس نے ڈینیوب ہوم کے ساتھ گھریلو فرنشننگ کے کاروبار میں قدم رکھا۔ چار سال بعد، 2012 میں، ایلوکوپینل آیا،جو ایلومینیم کمپوزٹ پینلز کا کاروبار ہے۔2014میں رئیل اسٹیٹ شعبہ میں داخل ہوگئے بس پھر"اس کے بعد سے اب تک پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ماں اور بیگم کی دعا سے اللہ نے کرم کیااور گیا۔،اور آج ڈینیوب پراپرٹیز یواے ای میں 3نمبرپرہے۔اورمیں سمجھتاہوں اس میں نہ صرف میری بلکہ ہماری پوری فیملی کی محنت اوربہترسوچ کازیادہ ہاتھ ہے
ہماری پالیسی بڑی سادہ اور آسان ہے ہم ایک وقت میں ایک پراجیکٹ شروع کرتے ہیں اور اسکا70٪ بیچ کراسی کی تعمیرمیں لگادیتے ہیں پھراگلے منصوبے پرکام شروع کرتے ہیں جب تک میں پہلامنصوبہ فروخت نہیں کرلیتا تودوسراشرع نہیں کرتا۔
ہم نے خریداری کے عمل کو آسان بنا کر شہر میں کرائے سے ملکیت کی طرف منتقلی کو تیز کر کے دبئی کے پراپرٹی سیکٹر کوبالکل تبدیل کرکے رکھ دیا ہے
رضوان ساجن نے ماضی کے بارے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب یہاں میں نے بحیثیت بروکرایک رئیل اسٹیٹ کمپنی میں جاب شروع کی۔ اورمحسوس کیایہاں گھروں کی بہت شارٹیج ہے کئی ایک فیمیلیز بالخصوص ایشین فیملیز(جس میں انڈیا،پاکستان،بنگہ دیش،سریلنکا)وغیرہ کی کمیونٹیزکم آمدنی اورکرائے زیادہ ہونے کی وجہ سےکئی کئی فیملیزمجبوراًایک ہی کرائے کے فلیٹ میں رہائش رکھے ہوئے ہیں
تو میں نے یہ سوچاکہ اگرمجھے موقع ملا تومیں لوگوں کے لیئے آسانیاں پیداکرونگااور میری کوشش ہوگی لوگوں کوکرائے کی گھروں کی بجائے دبئی میں اپنا ذاتی گھرمیسر آجائے توجب ڈینیوب پراپرٹیز کے پلیٹ فارم سے میں نے 1٪ ڈاؤن پےمنٹ اورپھرہرماہ 1٪ ادائگی کافارمولا پیش کیا جولوگوں کوا یک خواب لگتاتھا میرے دوسرے رئیل اسٹیٹ کمپنیوں نے سوچا یہ توگیا فلاپ ہوجائیگا۔مگرمجھے پورایقین تھا میں اس میں کامیاب ہوجاؤنگا اور بالاًخر میرا آئیڈیا نے نہ صرف یواے ای کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ بلکہ پوری دنیا میں ایک دھوم مچا دی ۔ڈینیوب آفس میں خریداروں کی لائیںیں لگناشروع ہوگئیں اورجب بھی ہم کوئی نیاتعمیراتی منصوبہ لانچ کرتے وہ لانچ کرتے ہی 80٪ سے زیادہ ایڈوانس میں ہی بک ہوجاتا یوں ہم نے 2014 سے لیکر2014 تک 18 بلین درہم کی مالیت کے 16،234 مختلف رہائشی یونٹس ہماری کمپنی کے پورٹ فولیوکاحصہ بن چکے ہیں
رضوان ساجن نے کہا کہ یواے ای حکومت کاوژن بڑا بلند اور روشن ہے اور بالخصوص نائب صدر/وزیراعظم وحاکم دبئی عزت مآب شیخ محمدبن راشد المکتوم ایک ترقی پسند سوچ کے مالک ہیں وہ دبئی کودنیا کا سیاحتی،رہائشی اوربزنس ھب بناناچاہتے ہیں دنیابھرمیں دبئی ایک جنت کی مانند تصورکیاجاتاہے لوگ سیاحت،خریداری،جابز اوررہائش کے لیئے دبئی(یواے ای)کوترجیح دیتے ہیں چندبرس پہلے یہاں 10سالہ گولڈن ویزا سکیم شروع کی گئی جس سے لوگوں کایواے ای مارکیٹ پراعتماد اور زیادہ بڑھ گیاٹیلٹنڈ مائینڈ کے لیئے انہیں یہاں گولڈن ویزہ کی آفرکی گئی یقیناً اس سے رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کی ساکھ اور مضبوط ہوگی جب لوگ لانگ ٹرم پریہاں سکونت اختیارکرینگے تووہ کرائے کے گھروں میں رہنے کی بجائے اسے کرائے کی مد میں اپناذاتی گھرلینے کوترجیح دیں گے،یہی میرااورڈینیوب پراپرٹیزکاوژن ہے۔
یواے ای کاامن وامان ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشرق وسطیٰ میں فلم فیئر میگزین کے حقوق خریدے، اور اب لگژری اپارٹمنٹ بنا رہے ہیں
خصوصیات، "وہ وضاحت کرتا ہے. "اس طرح میں ایک فیصد منصوبہ لے کر آیا ہ
کمپنی کے پاس 16,234 یونٹس کا ترقیاتی پورٹ فولیو ہے، جس کی مشترکہ قیمت ڈی ایچ 18 بلین سے زیادہ ہے۔ ڈینیوب پراپرٹیز پر اضافی معلومات کے لیے
۔1
ساجن کو یقین ہے کہ حفاظت، تفریح، انفراسٹرکچر، ٹیکسیشن فوائد اور گولڈن ویزا کے لیے دبئی کی قابل ذکر ساکھ بغیر کسی اہم مسائل کے مارکیٹ کو دو سے تین سال تک مستحکم رکھے گی۔ وہ مارکیٹ میں آنے والی سپلائی کو تسلیم کرتا ہے لیکن اس بات پر زور دیتا ہے کہ یہ زبردست اضافے کے بجائے بتدریج اور کنٹرول شدہ رفتار سے ہے۔ یہ محتاط اور پیمائش شدہ نقطہ نظر واضح ہے کیونکہ ڈویلپرز آہستہ آہستہ اور مستقل طور پر نئے پروجیکٹ شروع کرتے ہیں۔
۔
"منصوبہ یہ تھا کہ میں جائیداد کی وصولی کے حوالے سے پہلے ایک رقم لے کر آؤں گا،” وہ کہتے ہی
ا، لیکن اب یہ تعداد 50/50 ہو گئی ہے اور بہت سے لوگ دبئی کو اپنا دوسرا گھر بنانا چاہتے ہیں جو دبئی کی معیشت کے لیے بہترین ہے۔”
جب کہ زیادہ تر ڈویلپرز اعلیٰ درجے کے ولاز فروخت کر رہے تھے، ساجن بتاتے ہیں کہ "چاہے وہ بر دبئی، کراما، شارجہ میں مقیم ہوں، یہ گروپ فری ہولڈ پابندیوں کی وجہ سے ان علاقوں میں جائیداد نہیں خرید سکتا تھا،” وہ کہتے ہیں۔ وہ جہاں وہ رہ رہے تھے اس کے قریب جائیدادیں بنانے، انہیں کچھ عیش و آرام کے ساتھ بڑھانے اور کچھ سہولیات فراہم کرنے کے لیے ایک اختراعی تصور کے ساتھ آیا۔
ڈینیوب اور فیشن ٹی وی کی طرف سے فیشنز کے آغاز کے ساتھ، ڈینیوب پراپرٹیز لگژری مارکیٹ میں داخل ہو گئی ہے، اس چمک اور گلیمر کے ساتھ ہم آہنگ ہے جو دبئی کی علامت ہے۔ پراپرٹی کے رجحانات کی نبض کو پہچانتے ہوئے، ساجن نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا جب فیشن ٹی وی دبئی پہنچا، جس نے دبئی کے شاندار ماحول کو مکمل طور پر سمیٹ لیا۔
"Fashionz کو فیشن ٹی وی ڈیزائنرز نے خاص طور پر ہمارے لیے اپنی مرضی کے مطابق بنائے گئے انٹیریئرز کے ساتھ پیش کیا ہے، جو دبئی میں کہیں بھی دستیاب نہیں ہے،” وہ بتاتے ہیں، ہر بار مارکیٹ میں کچھ منفرد بنانے کے لیے USP کی حمایت حاصل ہے۔ ڈینیوب پراپرٹیز فیشنز نے 40 سے زیادہ بے مثال سہولیات کے غیر معمولی انتخاب کے ساتھ عیش و آرام کی زندگی کی نئی تعریف کی ہے۔
رہائشی غیر معمولی خصوصیات میں شامل ہو سکتے ہیں جیسے کہ انڈور سوئمنگ پول، 24/7 طبی خدمات، بچوں کے کھیلنے کی جگہ، اور بہت کچھ، دبئی میں شاہانہ زندگی کے لیے ایک نیا معیار قائم کرنا۔
بقایا CSR
ساجن کا پہلا CSR اقدام بلیو کالر ورکرز پر توجہ مرکوز کرتا ہے، انہیں انگریزی زبان اور کمپیوٹر کی مہارت کی تربیت فراہم کرتا ہے۔ اس پروگرام کا مقصد ان کارکنوں کو بااختیار بنانا تھا، کیونکہ ان کی انگلش بولنے کی نا اہلی اکثر ان کی صلاحیت اور کام کرنے کی خواہش کے باوجود انہیں بھاری مزدوری کی ملازمتوں تک محدود رکھتی ہے۔ بہت سے دوسرے کاروباروں کے برعکس جنہوں نے وبائی امراض کے دوران ملازمین کو فارغ کیا، ڈینیوب گروپ نے اپنی کسی بھی ورک فورس کو ختم نہ کرنے کا انتخاب کیا۔ ساجن کے اس فیصلے نے ملازمین کی حوصلہ افزائی میں ایک اہم اضافہ کیا۔ اس نے جن ملازمین کو برقرار رکھا تھا وہ پوری لگن کے ساتھ واپس آئے، جس کے نتیجے میں کمپنی نے اس سال اپنا سب سے زیادہ منافع حاصل کیا۔
مستقبل کے آغاز
ساجن کے مطابق، آگے بڑھتے ہوئے، ڈینیوب پراپرٹیز اسی طرح جاری رہے گی۔
وہ بتاتے ہیں، "ہماری پالیسی کافی سادہ رہی ہے۔ ایک وقت میں ایک پروجیکٹ شروع کریں، اس کا 70 فیصد بیچیں اور اس پروجیکٹ کو تعمیر میں لگائیں۔ پھر اگلے منصوبے پر شروع کریں. ہم نے ہمیشہ پیروی کی ہے۔کماؤں گا اور ایک وقت میں ایک پروجیکٹ پر کام کروں گا
طلب اور رسد
دبئی کے بڑھتے ہوئے پراپرٹی سیکٹر کے حوالے سے، ساجن کا کہنا ہے کہ وہ مارکیٹ میں سپلائی کے بارے میں فکر مند نہیں ہے۔
"میں بالکل پریشان نہیں ہوں کیونکہ 2008 اور 2009 کے برعکس، اس بار مارکیٹ بالکل مختلف ہے۔ پہلے یہ فلیپرز تھا نہ کہ ڈیمانڈ۔ آج، اصل مطالبہ ان تارکین وطن کی طرف سے آ رہا ہے جو کسی خاص اپارٹمنٹ میں رہنا چاہتے ہیں یا بیرون ملک مقیم غیر ملکی جو دبئی کو دوسرا گھر بنانا چاہتے ہیں،” وہ کہتے ہیں۔