آزادی پاکستان کامختصرتاریخی جائزہ(چوہدری ارشد)۔
‘۔14اگست 1947ء کو ایک آزاد اور خود مختار ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔
تاریخ پاکستان یا پاکستان کی تاریخ سے مراد اُس خطے کی تاریخ ہے جو 1947ء کو تقسیم ہند کے موقع پر ہندوستان سے الگ ہو کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلایا۔ تقسیم ہند سے قبل موجودہ پاکستان کا خطہ برطانوی راج کا حصہ تھا۔ اُس سے قبل اس خطے پر مختلف ادوار میں مختلف مقامی بادشاہوں اور متعدد غیر ملکی طاقتوں کا راج رہا۔ قدیم زمانے میں یہ خطہ برصغیر ہند کی متعدد قدیم ترین مملکتوں اور چند بڑی تہذیبوں کا حصہ رہا ہے۔ 18 ویں صدی میں سرزمین برطانوی ہند میں ڈھل گئی۔پاکستان کی سیاسی تاریخ 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام سےشروع ہوئی۔مسلم لیگ کے قیام کا مقصد ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کے مفاد کا تحفظ اور اُن کی نمائندگی کرنا تھا۔ 29 دسمبر 1930ء کو شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے جنوب مشرقی ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک خود مختار ریاست کا تصور پیش کیا 1930ء کی دہائی کے اواخر میں مسلم لیگ نے مقبولیت حاصل کرنا شروع کی۔1933 میں اس کا نام چوہدری رحمت علی نے تجویز کیا اور خاکہ بنایا جس میں مختلف علاقوں کو ملا کر پاکستان کا ایک نقشہ کھینچا۔ محمد علی جناح کی جانب سے دو قومی نظریہ پیش کیے جانے اور مسلم لیگ کی جانب سے 1940ء کی قرارداد لاہور کی منظوری نے پاکستان کے قیام کی راہ ہموار کی۔ قرارداد لاہور میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ برطانوی ہند کے مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل آزاد ریاستیں قائم کی جائیں۔ بالآخر قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں ایک کامیاب تحریک کے بعد 14 اگست 1947ء کو برطانوی تسلط سے آزادی ملی اور تقسیم ہند عمل میں آئی۔ مگرآزادی کے پیچھے بیشمارتلخ حقائق بھی موجودہیں جن سےآنکھ نہیں چرائی جاسکتی ،تقسیم کااعلان ہوتے ہی منظم شرپسندوں نے لوٹ مار،عصمتوں کی پامالی اور قتل وغارت کاناقابل فراموش بازارگرم کردیا جوکبھی بھلایانہیں جاسکتا اور ہمیں آزادی کی ایک بھاری قیمت اپنے پیاروں کی جانیں قربان کرکے اداکرناپڑی۔شائد ہماری نئی نسل ان تلخ حقائق سے روشنانہیں ورنہ وہ آزادی کاجشن غل غپاڑہ اور ون وہیلنگ کرکے نہ مناتی بلکہ اپنے پیاروں کی مغفرت اور آزادی کے مجاہدوںکوخراج تحسین پیش کرتی اور ملک کی بقا اور تحفظ کے لئیے جان کی بازی لگانے سے دریغ نہ کرتی مگریہ دیکھنے میں آیاہے ملک پرجب کبھی کوئی مشکل مرحلہ آیا نوجوان نسل نے بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔اور بقول علامہ اقبال (زرانم ہوتویہ مٹی بڑی زرخیزہے ساقی ).… ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مملکت خداداد پاکستان دنیاکاعظیم اسلامی ملک ہے۔ یہی دنیائے اسلام کا واحد ایٹمی ہتھیاررکھنے والا ملک ہے جو ایک نظریہ کے تحت وجود میں آیا۔ اگست کا مہینہ آزادی پاکستان کا مہینہ ہے ۔
ماہ اگست پاکستان کی آزادی کامہینہ ہے اسی مہینے کی چودہ اور پندرہ تاریخ کی درمیانی شب قیام پاکستان کا اعلان ہوا اور دنیا کے نقشے پر ایک نئے اسلامی ملک کا اضافہ ہوا،ایک طویل جدوجہدکے بعدپاکستان معرض وجودمیں آیا،پاکستان کے قیام میں لاکھوں افرادنے سخت جدوجہدکی اورلاکھوں جانوں کانذرانہ دے کر ہمیں آزادی جیسی عظیم نعمت دلوائی جیساکہ ہم سب کومعلوم ہے کہ ہم 73واں یوم آزادی منارہے ہیں آزادی کے 73ویں سال پر ہم ان تمام غازیوں اور شہدا کو سلام کرتے ہیں جن کی انتھک محنت اور جدوجہد کے باعث ہم ایک باوقار اورآزاد وطن میں سانس لے رہے ہیں، ہندووں اور مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت،افکار و خیالات اور تاریخ سب جداگانہ تھے ہیں اور ہیں گے اس لئے ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے ایک ایسے علیحدہ وطن کی ضرورت تھی جہاں وہ مکمل آزادی کے ساتھ اپنے مذہبی عقائد کے ساتھ ایک آزاد زندگی بسرکرسکیں ،بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا پاکستان تو تبھی معرض وجود میں آگیا تھا جس دن پہلے مقامی باشندے نے اسلام قبول کیا تھا۔1857 کی آزادی جنگ سے تحریک پاکستان کی جہدوجہد کا مقصد اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تھا۔ ہم تحریک پاکستان کے ان عظیم کارکنان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جن کی عملی فکری سیاسی نظریاتی جنگ اور قربانیوں کی بدولت ہمیں پیارا وطن پاکستان ملا۔تحریک آزادی پاکستان میں مرد عورتوں بچوں بوڑھوں اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے حصہ لیا تھا۔آزادی کی یہ جنگ بنا کسی فوج یا اسلحے کے عوام نے سیاسی بصیرت، تعلیم و آگاہی، اخوت و اتحاد کے ساتھ لڑی اور آزاد وطن کےخواب کو حقیقت کا رنگ دیا۔ ٹیپو سلطان نے تخت سنبھالا۔ ٹیپو سلطان کی شجاعت اور جرات کی داستانیں آج بھی زندہ ہیں جو برصغیر پر انگریزوں کے قبضے کے خلاف سب سے بڑی ڈھال بنا رہا ۔ٹیپو سلطان کا یہ قول شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سال سے بہتر ہے آج بھی زبان زدوعام ہے۔ بنگال کے نواب سراج الدولہ بھی انگریزوں کی سازشوں سے آگاہ تھے ساری زندگی بنگال کو انگریزوں کے قبضے سے بچانے میں صرف کردی لیکن اپنوں کی سازشوں اور انگریزوں کی چالوں کی وجہ جنگ پلاسی میں شکست کھائی۔سید احمد شہید الہ آباد سے تعلق رکھتے تھے۔دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد نواب امیر خان کی فوج میں شمولیت اختیار کی سکھوں کے خلاف جہاد کا فیصلہ کیا وہ چاہتے تھے ہندوستان میں اسلامی ریاست بنے۔پشاور کو اسلامی حکومت کا مرکز بنایا اور اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی۔آپ نے معرکہ بالا کوٹ میں شہادت پائی ۔شاہ اسماعیل شہید شاہ ولی اللہ کی تحریک کا حصہ تھے۔عالم دین ہونےکے ساتھ ساتھ عملی جہاد کا حصہ بنے۔ہزاروں مسلمانوں کو اکھٹا کیا اور لشکر تیارکیا۔بالا کوٹ سکھ فوجوں اور مسلمان مجاہدین کے درمیان لڑائی میں آپ نے سید احمد شہید کے ساتھ جام شہادت نوش کیا ۔سرسید احمد خان تحریک آزادی کے ان اکابرین میں سے ایک ہیں جنہوں نے قلم سے جہاد کی بنیاد رکھی ۔انگلش لٹریچر کا اردو میں ترجمہ کیا اور علی گڑھ سائنٹفک سوسائٹی کی بنیاد رکھی ۔دو قومی نظریے کے حوالے سے انہوں نے کہا ہندو اور مسلمان ایک قوم کے طور پر ترقی نہیں کرسکتے۔علی گڑھ کالج قائم کیا جس کے تحت مسلمانوں میں تعلیم کو فروغ دیا گیا۔نواب محسن الملک سر سید احمد خان کے رفیق رہے علی گڑھ تحریک کا حصہ رہے۔سرسید کی وفات کے بعد علی گڑھ کالج کا چارج سنبھالا ۔آپ نے مسلم لیگ کا منشور لکھا ۔نواب وقار الملک نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود، تعلیم اور سیاسی بیداری کے لئے بہت کام کیا۔ وہ مسلم لیگ کے بانی ارکان میں سے ایک تھے ۔سر آغا خان نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور تعلیم کے لئے گراں قدر خدمات دیں ۔لارڈ منٹو سے مذاکرات کئے اور آزادی کا مطالبہ کیا ۔آل انڈیا مسلم لیگ کے پہلے صدر منتخب ہوئے ۔مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کو خطیر چندے دیے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی سیاسی بصیرت پر بھروسہ کرتے ہوئے ہوئے وہ سیاست سے الگ ہوگئے اور فلاحی کام جاری رکھے ۔الطاف حسین حالی نے مسلمانوں میں تعلیمی شعور کو بیدار کیا۔مسدس حالی لکھ کر سلمانوں کی عظیم تاریخ کو رقم کیا ۔انقلابی شاعری کی اور مسلمانوں کی روح کو بیدار کیا۔مولانا حسرت موہانی تحریک ازادی کے کارکن، شاعر اور صحافی تھے۔آپ نے مسلمانوں کی آزادی کے لئے کٹھن جہدوجہد کی۔مولانا اشرف تھانوی تحریک آزادی پاکستان کے جید رہنماوں میں سےایک تھے۔اسلام کی ترویج کے لئےآپ نے ہزارسےزائد کتابیں لکھیں اورقیام پاکستان کی پیش گوئی کی
مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر نے اپنی پوری زندگی سیاسی سرگرمیوں کے لیئے وقف کردی ۔علی برادران کی والدہ بی اماں نے بھی تحریک خلافت میں بہت کام کیا۔مولانا ظفر علی خان کی سیاسی زندگی کا آغاز مسلم لیگ سے ہوا،آپ زمیندار اخبار کے مدیر بھی تھے جو مسلمانوں کے حقوق کی بھرپور ترجمانی کرتا تھا۔قرار داد پاکستان کے لیے مولانا ظفر علی خان نے کلیدی کردار ادا کیا ۔شیر بنگال مولوی فضل الحق نے قرار داد پاکستان پیش کی ۔1935 میں وہ کلکتہ کے پہلے میئر منتخب ہوئے ۔علامہ شبیر احمد عثمانی علوم اسلامیہ کے ماہر ،تفسیر و حدیث کے عالم انہوں نے جمیعت العلماء اسلام قائم کی ۔بعد ازاں انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔ان کہ وجہ سے مذہبی حلقوں کی رغبت بھی مسلم لیگ کی طرف ہوگئی۔بانی پاکستان قائد اعظم محمدعلی جناح نے صوبہ سرحد میں ریفرنڈم کے دوران انکی خدمات کوبہت سراہا ۔پاکستانی پرچم کی پہلی سرکاری پرچم کشائی آپ کے مبارک ہاتھوں سے ہوئی۔حسین شہید سہروردی نے حصول تعلیم کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا کلکتہ کے ڈپٹی مئیر منتخب ہوئے اور بعد ازاں ممبر قانون ساز اسمبلی منتحب ہوئے آپ نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیارکی اور بنگال کے وزیر اعلی بنے قیام پاکستان کے بعد وہ تین سال وزیراعظم رہے۔لفظ پاکستان کے خالق چوہدری رحمت علی شروع سے ہی آزاد ملک کے خواہاں تھے۔پاکستان کا لفظ انہوں نے تخلیق کیا پنجاب شمال مغربی سرحدی صوبہ کشمیر سندھ اور بلوچستان سے مل کر بنا ہے اس کا مطلب ہے پاک ستان یعنی پاک لوگوں کے رہنے کی سرزمین۔لیاقت علی خان نے 1923 میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔مسلمانوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کا آغاز کیا۔ آپ کاشمار قائد اعظم کے خاص اور قریبی ساتھیوں میں ہوتاتھا لیاقت علی خان نے ہندوستان کا پہلابجٹ بنایا ۔پاکستان بننے کے بعد وہ پہلے وزیر اعظم منتحب ہوئے۔آئین سازی کا آغاز کیا ۔مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین نے بھی تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ کر حصہ لیا اور فاطمہ جناح، بیگم رعنا لیاقت،بیگم سلمی تصدق، بیگم زری سرفراز،بیگم شائستہ اکرام اللہ، بیگم جہاں آرا شاہنواز،بیگم وقار النساء نون،لیڈی ہارون، اور دیگر خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر آزادی کا علم بلند کیا۔
سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے عظیم شاعر ومفکر جناب علامہ محمد اقبال جنہوں نے اپنی شاعری سے مسلمانوں کو جلا بخشی ۔اسرار خودی،رموز بے خودی،پیام مشرق بانگ درا،ضرب کلیم، ارمغان حجاز، اور جاوید نامہ نے مسلمانوں کی فکری آبیاری کی۔30 دسمبر کو الہ آباد میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہندوستان مختلف اقوام کا ملک ہے جن کی نسل زبان مذہب سب ایک دوسرے سے الگ ہیں ۔ علامہ اقبال نے کہا کہ مجھے نظر آرہا ہے شمالی مغربی ہندوستان کے مسلمان ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرلیں گے۔
قائد اعظم محمد علی جناح بانی پاکستان نے اپنی پوری زندگی برصغیر کے مسلمانوں کے لئے وقف کردی۔1928 میں چودہ نکات پیش کئے۔پہلی گول میز کانفرنس میں مسلمانوں کی موثر نمائندگی کی۔1934 سے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے بھرپور مہم کا آغاز کیا اور مسلم لیگ مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت بن گئی۔18 جولائی 1947 کو آزادی ہند کا قانون نافذ ہوا۔14 اگست کی درمیانی شب ہندوستان تقسیم ہوگیا اور قائد اعظم پاکستان کے پہلے گورنر جنرل منتخب ہوئے ۔
اگست 1947ء کے ہی تاریخ ساز دن جب قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کے ہمراہ ملیر ایئرپورٹ کراچی کے فوجی اڈے پر طیارے سے نیچے قدم رکھا تو فضا’’قائد اعظم زندہ باد۔۔۔پاکستان زندہ باد‘‘ کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی۔ میکلوڈروڈ(موجودہ آئی آئی چندریگر روڈ) سے عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اپنے محبوب قائد کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے رواں دواں تھا۔ م طویل مدت کے بعد اپنی جائے پیدائش پرمحبوب قائد کی آمد قابلِ دید تھی ۔ اس کے بعد قائد اعظم تادمِ مرگ تعمیرِ وطن کی شب و روز خدمات میں یوں جت گئے کہ نہ دن کا ہوش رہا اور نہ رات کی فکر۔ اس شدید محنت نے تھکن سے دوچار قائد کے آہنی حوصلے کو کسی طور پرسرد نہ پڑنے دیا۔ قائد اعظم احترامِ انسانیت کے علم بردار رہے۔ یومِ آزادی کے مہینے یعنی اگست 1947ء کے دوران قائداعظم کے خطابات سن کر آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ وہ پاکستان کو اسلامی دنیا کا ذمہ دار ملک کا درجہ دلوانے کے حق میں تھے۔ ان کے بصیرت افروز خیالات نے بھارت کی وہ گھناؤنی سازش ناکام بنادی، جس کے تحت وہ پاکستان کو عالمی برادری میں متعصب ملک مشہور کرانا چاہتا تھا۔ یہ قائد اعظم کی بالغ نظری تھی،جس نے نفرت کے آلاؤ کو گلزارِ ابراہیم میں تبدیل کردیا۔11اگست کو دستور ساز اسمبلی میں پاکستان کے خدوخال واضح کرتے ہوئے قائد اعظم نے پاکستانی شہریوں (اکثریت و اقلیت) کے مساوی حقوق اور دوستانہ بین الاقوامی تعلقات کے فروغ کی بات کی۔
’’آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے، آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاستِ پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے۔ میں یہ بات مذہبی معنوں میں نہیں کہہ رہا ہوں، کیوں کہ یہ تو ہر فرد کے ذاتی عقیدے کا معاملہ ہے۔ بلکہ ریاست کے باشندے ہونے کی بنا پر سیاسی معنوں میں کہہ رہا ہوں‘‘۔انھوں نے خطبہ صدارت میں مزید کہا، ’’جو لوگ اپنی نادانی سے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ پاکستان کو ختم کردیں گے، بڑی سخت بھول میں مبتلا ہیں۔ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کا شیرازہ بکھیرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی، اِس کی جڑیں مضبوط اور گہری ہیں۔ ہمارے دشمنوں کے اُن خوابوں یا اِرادوں کا نتیجہ جس کی وجہ سے وہ قتل اور خونریزی پر اُتر آتے ہیں، سوائے اِس کے کچھ نہ نکلے گا کہ کچھ معصوم اور بے گناہوں کا خون بہے۔ یہ لوگ اپنی حرکتوں سے اپنے فرقہ کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ لگا رہے ہیں‘‘۔14اگست 1947ء کو دنیائے عالم کے نقشے پر ایک آزاد اور خود مختار ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے معرضِ وجود میں آیا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے قائداعظم کو پہلے گورنر جنرل پاکستان کے اختیارات منتقل کیے۔ قائداعظم نے امن و محبت اور رواداری کی تلقین کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ مسلمان ریاست حسنِ سلوک کی اعلیٰ روایات کی پاسدار ہوتی ہے۔میں شاہ برطانیہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے پاکستان کی آئین ساز اسمبلی اور میرے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ ہماری سعی ہے کہ ہم پاکستان میں آباد تمام فرقوں کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں۔ مجھے یقین ہے ہر پاکستانی شہری ہمارے نظریۂ فلاحی خدمت سے تحریک حاصل کرے گا۔ وہ اتحاد و یگانگت کے ساتھ ایسی تمام سیاسی و شہری خصوصیات سے متصف ہو گا، جو ایک قوم کو عظیم بناتی ہے۔ میں (انگریز) حکومت اور افواج میں شامل ان (غیر مسلم) مرد و زن کے جوش و جذبے کی قدر کرتا ہوں، جنھوں نے بہ رضا و رغبت پاکستان کی رضاکارانہ خدمت کرنے کے لیے خود کو پیش کیا۔ ہم انھیں خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ ان کے ساتھ تمام شہریوں کے مانند برابری کا سلوک کیا جائے گا۔ تیرہ صدیاں قبل جب نبی کریم ﷺنے یہود و نصاریٰ کو مفتوح کیا، ان کے ساتھ زبانی نہیں عملی طور پر نہایت شاندار سلوک فرمایا۔اس موقع پر آپﷺ نے کمال درجے کی رواداری کا مظاہرہ فرمایا اور ان کے ایمان و مذہب کی تعظیم فرمائی۔ مسلمانوں نے جہاں بھی حکمرانی کی، ان کا دور انہی انسان دوست اعمال اور عظیم اصولوں سے عبارت ہے۔ ہمیں بھی انہی اصولوں پر عمل کرنا اور ان کے مطابق چلنا ہوگا۔میں سبھی کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ پاکستان اپنے پڑوسیوں اور دنیا کے سب ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے‘‘۔
…..(۔14اگست 1947کو آئین ساز اسمبلی کی افتتاحی تقریب سے خطاب)
آزاد و خودمختار پاکستان کے قیام کے فوری بعد یہ ہماری پہلی عید ہے۔ آج کے دن پوری اسلامی دنیا میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یہ ہم سب کے لیے مسرت و افتخار کا دن ہے۔اس خاص دن پر تمام مسلم امہ کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے امید کرتا ہوں کہ اسلامی ثقافت و اقدار کی نشاۃ ثانیہ کا یہ سفر جاری رہے گا۔ میں اللہ سے دعاگو ہوں کہ پاکستان کو اقوامِ عالم میں عظیم قوم کی حیثیت سے اُجاگر کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے پاکستان حاصل کرلیا ہے مگر یہ اختتام کی ابتدا ہے۔آگے عظیم ذمہ داریاں ہماری منتظر ہیں۔ اصل کام کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ صلاحیتوں سے مالا مال مسلمانوں کے بارے میںمجھے کوئی شبہ نہیں، وہ یہ بھاری بوجھ اپنے توانا کندھوں پر اٹھا لیں گے اور ملک کو درپیش رکاوٹوں سے نکال کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن کریں گے‘‘۔
(۔۔۔۔۔( 18اگست 1947ء کو پاکستان میں پہلی عید کے موقع پر قوم کے نام پیغام
’’قدرت نے آپ کو ہر نعمت سے نوازا ہے۔ آپ کے پاس لامحدود وسائل موجود ہیں۔ آپ کی ریاست کی بنیادیں مضبوطی سے رکھ دی گئی ہیں۔ اب یہ آپ کا کام ہے کہ نہ صرف اِس کی تعمیر کریں بلکہ جلد از جلد اور عمدہ سے عمدہ تعمیر کریں۔ آگے بڑھیے اور بڑھتے ہی جائیے‘‘۔ (آزادی پاکستان کی پہلی سالگرہ کے موقع پر قوم کے نام پیغام،14اگست 1948) ء
آج ہم آزادی کے 72سال مکمل ہونے پر جشن منا رہے ہیں۔ قائد اعظم قیامِ پاکستان کی پہلی سالگرہ ہی دیکھ پائے اور 11ستمبر 1948ء کو دنیا کو خیرباد کہہ کر ملکِ عدم روانہ ہوئے۔
(آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے ۔۔ سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے)