محرم اور عاشورہ کا تقدس

31

محرم اور عاشورہ کا تقدس

 تحریر::ایم یوسف بھٹی
اسلامی سال کا آغاز محرم کے مہینے سے ہوتا ہے جس میں 10 محرم الحرام کا تاریخ ساز واقعہ کربلا پیش آیا۔قرآن کریم نے محرم کے مہینے کو حرمت والا مہینہ قرار دیا ہے۔ اللہ تعالٰی نے یہ بتلا دیا کہ چار مہینے ایسے ہیں جو حرمت والے ہیں، ان میں سے ایک محرم کا مہینہ ہے۔ خاص طور پر محرم کی دسویں تاریخ جسے عاشورہ کہا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمت و برکت کا خصوصی دن ہے کیونکہ اس روز امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی کی شہادت کا واقعہ پیش آیا۔جب تک رمضان کے روزے فرض نہیں ہوئے تھے اس وقت تک عاشورہ کا روزہ رکھنا مسلمانوں پر فرض قرار دیا گیا تھا بعد میں جب رمضان کے روزے فرض ہو گئے تو اس وقت عاشورہ کے روزے کی فرضیت منسوخ ہو گئی لیکن حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کو سنت اور مستحب قرار دیا۔
یوم عاشورہ ایک مقدس دن ہے۔بعض مسلمانوں کا خیال ہے کہ عاشورہ کے دن کی فضیلت کی وجہ یہ ہے کہ اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس نواسے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا، اس شہادت کے پیش آنے کی وجہ سے عاشورہ کا دن مقدس اور حرمت والا بن گیا ہے، حالانکہ خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں عاشوراء کا دن مقدس دن سمجھا جاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں احکامات بیان فرمائے تھے اور قرآن کریم نے بھی اس کی حرمت کا اعلان فرمایا تھا، جبکہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا واقعہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تقریباً ساٹھ سال کے بعد پیش آیا۔ لھذا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کا اس روز واقع ہونا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مزید اعلی فضیلت کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی کو شہادت کا مرتبہ اس دن کو عطا فرمایا جو پہلے ہی سے مقدس اور محترم چلا آ رہا تھا۔
اس دن کی فضیلت کی وجوہات کیا ہیں اس کا علم صرف اللہ تبارک و تعالٰی ہی کو معلوم ہے
بعض لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام دنیا میں اترے تو وہ عاشورہ کا دن تھا، جب نوح علیہ السلام کی کشتی طوفان کے بعد خشکی میں اتری تو وہ عاشورہ کا دن تھا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب آگ میں ڈالا گیا اور آگ کو اللہ تعالٰی نے گلزار بنایا تو وہ عاشورہ کا دن تھا اور قیامت بھی عاشورہ کے دن قائم ہو گی۔ یہ باتیں لوگوں میں مشہور ہیں لیکن ان کی کوئی اصل اور صحیح روایت موجود نہیں ہے جو یہ بیان کرتی ہو کہ یہ واقعات عاشورہ کے دن پیش آئے تھے۔صرف ایک روایت میں آیا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ فرعون سے ہوا اور پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام دریا کے کنارے پر پہنچ گئے اور پیچھے سے فرعون کا لشکر آ گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ اپنی لاٹھی دریا کے پانی پر ماریں، اس کے نتیجے میں دریا میں بارہ راستے بن گئے اور ان راستوں کے ذریعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا لشکر دریا کے پار چلا گیا اور جب فرعون دریا کے پاس پہنچا اور اس نے دریا میں خشک راستے دیکھے تو وہ بھی دریا کے اندر چلا گیا، لیکن جب فرعون کا پورا لشکر دریا کے بیچ میں پہنچا تو وہ پانی مل گیا اور فرعون اور اس کا پورا لشکر غرق ہو گیا۔
یوم عاشورہ کے روز سنت والے کام کرنا کار خیر اور باعث برکت ہیں۔ اس بات کا ضرور خیال رکھنا چاہئے کہ جب اللہ تعالٰی نے اس دن کو اپنی رحمت اور برکت کے نزول کے لئے منتخب کر لیا تو اس کا تقدس یہ ہے کہ اس دن کو اس کام میں استعمال کیا جائے جو کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہوں، سنت کے طور پر اس دن کے لئے حکم دیا گیا ہے کہ اس دن روزہ رکھا جائے۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں جب بھی عاشورہ کا دن آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھتے لیکن وفات سے پہلے جو عاشورہ کا دن آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور ساتھ میں یہ ارشاد فرمایا کہ دس محرم کو ہم مسلمان بھی روزہ رکھتے ہیں اور یہودی بھی روزہ رکھتے ہیں اور یہودیوں کے روزہ رکھنے کی وجہ وہی تھی کہ اس دن میں چونکہ بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ فرعون سے نجات دی تھی، اس کے شکرانے کے طور پر یہودی اس دن روزہ رکھتے تھے۔ بہر حال ! حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں اور یہودی بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے ساتھ ہلکی سی مشابہت پیدا ہو جاتی ہے، اس لئے اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو صرف عاشورہ کا روزہ نہیں رکھوں گا بلکہ اس کے ساتھ ایک روزہ اور ملاؤں گا، 9 محرم یا 11 محرم کا روزہ بھی رکھوں گا تاکہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت ختم ہو جائے۔
لیکن اگلے سال عاشورہ کا دن آنے سے پہلے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر عمل کرنے کی نوبت نہیں ملی۔ لیکن چونکہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرما دی تھی، اس لئے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عاشورہ کے روزے میں اس بات کا اہتمام کیا اور 9 محرم یا 11 محرم کا ایک روزہ اور ملا کر رکھا اور اس کو مستحب قرار دیا۔
محرم الحرام میں عاشورہ کے روز نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ اور اہل بیت کی شہادتوں نے محرم الحرام اور اس دن کی اہمیت اور برکت کو چار چاند لگا دیئے کہ حق اور سچ کی سربلندی کے لئے اس دن جانوں کی قربانی دینے کی ایک ایسی مثال قائم ہوئی جس کی گزشتہ یا آئیندہ انسانی تاریخ مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

@media print { body { color: inherit; /* Ensures that the color is maintained */ } }