کل رات لاہور سے ایک کم سن بچے کا جنازہ اٹھا۔ ایسا لگا کہ یہ جنازہ ہماری گھٹیا اور منفی سیاسی سوچ کا جنازہ ہے۔ سوشل میڈیل پر جس طرح عمار کی وفات کو سیاسی اشو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اس سے ہمارے معاشرے کے اجتماعی معیار کا اندازہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی سیاسی سکورنگ پوری کرنے کے لئے اپنی تہذیب اور اخلاقیات میں کس حد تک نیچے گر جاتے ہیں۔
وفات پانے والے بچے عمار کے والد میاں عباد فاروق لاہور سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر ہیں۔جب عمار بیمار ہوا تو اس کے والد اور دادا 9مئی کے واقعات میں زندان کے پیچھے تھے۔ اب سوشل میڈیا پر عمار کی وفات پر دو طرح کے تبصرے ہو رہے ہیں۔ ایک طرف یہ دکھایا جا رہا ہے کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث میاں عباد فاروق کے بیٹے نے پیدائشی بیماری کے باعث وفات پائی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اس ہفتے میاں عباد فاروق کو جیل سے لا کر بیٹے سے ملاقات کروائی گئی۔ اس موقف کے مطابق لوگ پی ٹی آئی پر یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ جو میاں عباد فاروق اپنے لیڈر کے لئے توڑ پھوڑ کرتا رہا، لیڈر کی خوشنودی کے لئے ریاست پر حملہ آور ہوا اس کے خاندان کو بیٹے کے علاج کے لئے پارٹی کی طرف سے کوئی امداد نہیں دی گئی اور نہ ہی اسے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے "شوکت خانم ہسپتال” میں داخلہ ملا۔ اسے رائے ونڈ کے ایک ہاسپٹل سے اٹھا کر گھر لے جایا گیا لیکن اس کا علاج نہ کرایا جا سکا۔ یہ نقطہ نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ عمران خان کے فریکچر کا علاج شوکت خانم میں ہوا، شوکت خانم کے ڈاکٹرز کے پینل عمران خان کے گرد موجود رہے لیکن میاں عباد فاروق کے بیٹے کے لئے شوکت خانم کے دروازے نہ کھل سکے۔ اس بچے کے علاج کے لئے نہ پارٹی کے پاس پیسہ تھا، نہ شوکت خانم کے ڈاکٹرز تھے! ان کا کہنا ہے کہ پارٹی کارکن واقعی ٹشوپیپر ہوتے ہیں انھیں صرف بوقت ضرورت استعمال کیا جاتا ہے۔
دوسرا موقف یہ ہے کہ عباد فاروق کی گرفتاری کے بعد مسلسل پولیس کے چھاپوں اور ہراساں کرنے سے ان کا بیٹا ذہنی توازن کھو بیٹھا تھا جسے آئی سی یو میں رکھا گیا پھر اس کو زبردستی ہسپتال سے ڈسچارج کروا دیا گیا جس سے وہ جانبر نہ ہو سکا۔
پی ٹی آئی کے آفیشئل پیج سے ٹک ٹاک ویڈیوز اور پوسٹ ریلیز کی جا رہی ہیں، فیس بک پر واویلا ہو رہا ہے اور طرح طرح سے اس بچے کی وفات پر ریاستی دہشت گردی کے نام پر عوامی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک ویڈیو میں بستر علالت پر ایک آدمی کیمرے کے سامنے کہہ رہا ہے، "میرے بھتیجے کو سیاسی اشو بنا کر مارا جا رہا ہے، ہم پی ٹی آئی کے ہیں اس لئے ہمیں اتفاق ہاسپیٹل سے فارغ کیا گیا۔ ہمارے بچے کو کوئی دوسرا ہسپتال بھی داخلہ نہیں دے رہا۔ ہم بچے کو گھر رکھنے پر مجبور ہیں۔” ایک جگہ وہ آدمی بے ہوشی کے عالم میں نالی سے سانس لیتے بچے کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے، "عمار وہ دیکھو تمھارا بابا آ گیا ہے۔” اسی طرح آگے چل کر وہ آدمی جو خود کو عمار کے والد کا بھائی ظاہر کر رہا ہے کہتا ہے، "بچے کا باپ وہاں جیل میں تڑپ رہا ہے اور بچہ یہاں گھر میں مر رہا ہے۔” اسی طرح عمار کے بیمار ہونے سے پہلے اور بیماری کے دوران کی بہت ساری جذباتی بلیک میلنگ پر مبنی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی ہیں جس سے بچے کی وفات کو انتہائی بھیانک انداز میں سیاسی طور پر کیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ انہی ویڈیوز میں سے ایک اور ویڈیوز کے بیک گراونڈ میوزک میں فائرنگ کی آواز ریکارڈ کی گئی ہے، بچے کے منہ سے گولی کی آواز نکلتے سنائی گئی ہے اور میوزک کے بول میں کہا گیا ہے کہ، "ہم دشمن کے پیچھے آخری حد تک جائیں گے۔” یہ سوال بہت اہم نوعیت کا ہے کہ "یہ دشمن کون ہے اور یہ کس کی طرف اشارہ ہے؟” آخر ملک و سماج دشمن اس مہم کو چلانے کے پیچھے کونسے عناصر متحرک ہیں جس سے ہمارے اندر نفرت پیدا کی جا رہی ہے اور ہماری سوچ کو تقسیم در تقسیم کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جا رہا یے؟
یہ بچہ پی ٹی آئی کے رہنما میاں عباد فاروق کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اب یہ واضح نہیں کہ گزشتہ رات وہ اپنے بیٹے کے جنازے کو کندھا دینے کے لئے پہنچا یا نہیں؟ لیکن سوشل میڈیا پر اسے سیاسی اشو بنانے اور بے شرمی کے ساتھ اسے آگے پھیلانے کی جنگ جاری ہے۔ اس بچے کے دنیا سے رخصت ہونے پر جتنی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں اور بھانت بھانت کی غلیظ بولیاں بولی جا رہی ہیں وہ ہماری معاشرے کی اجتماعی سیاسی سوچ کا مظہر ہے جو اس بچے کی موت پر اس کے باپ اور خاندان کو بھی لمحہ لمحہ قتل کر رہی ہے۔ اس پر خود انسانیت بھی شرمندہ ہے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اس سے دنیا سے رخصت ہونے والے بچے کے والد، دادا اور دیگر فیملی کے دل پر کیا بیت رہی ہے۔ ہم اخلاقی گراوٹ کے جس پاتال میں گر چکے ہیں اس پر ” اِنّا لِلّٰهِ وَاِنّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْن” ہی پڑھا جا سکتا ہے (اللہ پاک میاں عباد اور انکے گھر والوں کو صبر جمیل عطا فرمائے)۔